1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحولیاتی تبدیلی پر فرانس اور برازیل کا لائحہ عمل

15 نومبر 2009

فرانس اور برازیل کے درمیان ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق ہو گیا ہے۔ ہفتہ کو برازیل کے صدر لوُلا ڈی سلوا نے پیرس میں اپنے فرانسیسی ہم منصب نکولا سارکوزی سے ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/KXEP
تصویر: AP

دونوں رہنماؤں نے آئندہ ماہ کوپن ہیگن کے عالمی ماحولیاتی سمٹ کے اہداف پر بات چیت کی۔ نکولا سارکوزی اور لُولاڈی سلوا نے کہا ہے کہ وہ دیگر ممالک کو بھی اپنے لائحہ عمل پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے، جس کا مقصد سن 2050ء تک کاربن کے اخراج کو سن 1990ء کی سطح سے نصف کرنا ہے۔

Staatsbesuch Sarkozy in Brasilien mit Lula da Silva
برازیل کے صدر لُولا ڈی سلوا اپنے فرانسیسی ہم منصب نکولا سارکوزی کے ساتھتصویر: AP

برازیل نے جمعہ کو اعلان کیا کہ وہ آئندہ ماہ کے اجلاس کے موقع پر کاربن کے اخراج میں چھتیس سے انتالیس فیصد تک رضاکارانہ تخفیف کی پیش کش کریں گے، جس میں بنیادی طور پر ایمازون کے جنگلات میں درختوں کی کٹائی میں کمی شامل ہے۔ یورپ کی جانب سے اس ا‌خراج میں تیس فیصد کمی کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔

چین اور امریکہ دُنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے سب سے بڑے ذمہ دار ملک ہیں، جن کی صنعتی ترقی درجہء حرارت میں اضافے کا باعث ہے۔ تاہم ان حکومتوں کی جانب سے کاربن کے اخراج میں کمی کے حوالے سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا، جس پر ماہرین ماحولیات اور سنجیدہ اقدامات کا اعلان کرنے والے ممالک کو تشویش لاحق ہے۔

کوپن ہیگن کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس دسمبر میں منعقد ہورہی ہے، جس میں عالمی ماحولیاتی معاہدے کیوٹو پروٹوکول کے متبادل پر غور کیا جائے گا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے کیوٹو معاہدے کی توثیق بھی نہیں کی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اپنے ایک حالیہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ کوپن ہیگن کا اجلاس قریب ہے اور عالمی رہنماؤں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو اپنی اوّلین ترجیح بنائیں۔

ماحولیاتی تحفظ پر کام کرنے والی تنظیم 'گرین پیس برازیل' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مارسیلو فُرٹاڈو کہتے ہیں:’’اس صورت حال میں امریکہ دُنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ چین اپنے اہداف کا اعلان آئندہ ہفتے کر دے گا، جس کے بعد امریکی صدر باراک اوباما کے پاس صرف دو راستے ہوں گے، یا تو وہ ما‌حولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے وعدے نبھائیں یا پھر اپنے پیشرو سابق صدر جارج بش کی پالیسیوں کو ہی برقرار رکھیں۔ فرُٹاڈو نے یہ بھی کہا کہ برازیل اور فرانس کے اعلان سے چین اور امریکہ پر دباؤ بڑھے گا۔

Ban Ki Moon in Afghanistan
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مونتصویر: AP

خبررساں ادارے AFP کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا:’’یہ وہی فرانس ہے، جو برازیل کی پہلی جوہری آبدوز کی تیار میں مدد کے ذریعے وہاں نیوکلیئر پروگرام کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ یہ پہلو انتہائی منفی ہے۔ دوسری جانب فرانس ہی ہے، جو برازیل کے ساتھ مل کر کوپن ہیگن کے ماحولیاتی اجلاس کو کامیاب بنانا چاہتا ہے۔‘‘

دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ کے ذرائع کے مطابق سنگاپور میں جاری ایشیا پیسیفک کانفرنس میں شریک باراک اوباما سمیت دیگر عالمی رہنماؤں نے سن 2050ء تک کاربن کے اخراج کے لئے طے شدہ اہداف میں پچاس فیصد کمی کردینے کا اعلان کر دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پیرس اور ساؤپاؤلو کی حکومتیں چاہتی ہیں کہ واشنگٹن اور بیجنگ حکام کوپن ہیگن کے اجلاس میں کاربن کے اخراج میں کمی سے متعلق ٹھوس اہداف کے ساتھ شریک ہوں۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: گوہر نذیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں