1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مؤلن بیک’’ جہادیوں کا یورپی دارالخلافہ‘‘

عدنان اسحاق6 اپریل 2016

برسلز اور پیرس کے حملوں کے بعد بیلجیم اور فرانس میں غیر ملکیوں کے انضمام کے تناظر میں ایک نئی بحث جاری ہے۔ انضمام کے اس عمل میں کون کون سے رکاوٹیں آ رہی ہیں؟

https://p.dw.com/p/1IQRZ
تصویر: DW/D. Pundy

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے علاقے مؤلن بیک کی سڑکوں پر زیادہ تر خواتین حجاب اور شمالی افریقہ کے روایتی لباس پہنے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ اس علاقے میں اسلامی کتابیں کھلے عام اور باآسانی دستیاب ہیں جبکہ یہاں پر ایک گرجا گھر کے قریب جنوبی ایشیائی نوجوان کرکٹ کھیلتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مؤلن بیک میں ایک درجن سے زائد قومیت کے افراد آباد ہیں۔ یہاں پر بے روزگاری کی شرح پچاس فیصد سے زیادہ ہے اور حالیہ برسوں کے دوران اس علاقے کو’’یورپ میں جہادیوں کا دارالخلافہ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

گزشتہ برسوں کے دوران شام و عراق میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لینے والے کچھ افراد یہاں واپس لوٹے ہیں جبکہ خیال کیا جاتا ہے کہ پیرس اور برسلز حملوں میں ملوث بہت سے دہشت گرد مؤلن بیک میں ہی پروان چڑھے تھے۔ ماہرین کے بقول مؤلن بیک یورپ میں تیزی سے پروان چڑھتے ہوئے کثیر الاثقافتی معاشرے کا عکاس ہے اور حکام کو انضمام کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے اپنے منصوبوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

Belgien Brüssel Stadtteil Molenbeek nach Terroranschlägen in Paris
تصویر: DW/T. Schultz

سماجی علوم کی ماہر کورینا توریکنز کے خیال میں، ’’اس سے کوئی فرقی نہیں پڑھتا کہ کسی نے سر کو کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے یا نہیں بلکہ اصل چیز اس کی ذہنیت ہے۔ ہمیں بیلجیم میں غیر جانبداری اور سکیولرزم کے بارے میں بحث کو ختم کرتے ہوئے ایک کثیر الاثقافتی معاشرے کو اس کی تمام تر وضاحتوں کے ساتھ تسلیم کرنا ہو گا۔‘‘ تورینکنز فری یونیورسٹی برسلز سے منسلک ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں کے انضمام کے معاملات کی ماہر ہیں۔

اس موضوع پر صرف بیلجیم میں ہی بحث جاری نہیں ہے بلکہ یہ پڑوسی ملک فرانس میں بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ فرانس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں سے بھی جہادیوں کی ایک کثیر تعداد نے شام و عراق کا رخ کیا تھا۔ ساتھ ہی ان دونوں ممالک میں ایک اور مماثلت بھی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پر آباد ہے اور یہ دونوں اپنی سیکیولر شناخت کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں ہیں۔ سماجی علوم کی ایک اور ماہر الیکزینڈرا پیئٹری کے مطابق ، ’’ سوال یہ نہیں ہے کہ مسلمان ضم نہیں ہو بلکہ یہ معاشرے مسلمانوں کو ضم نہیں کر رہے‘‘۔