1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کے جبری یہودی مہاجر کی واپسی کی تمنا

1 اکتوبر 2011

لیبیا میں معمر القذافی کے اقتدارکو زوال ہو چکا ہے۔ قومی عبوری کونسل سارے ملک میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے کی کوششوں میں ہے۔ برسوں قبل جبری طور پر بیدخل کیے جانے والے یہودیوں کے خاندان کا ایک فرد واپس لیبیا پہنچا ہے۔

https://p.dw.com/p/12kIb
تصویر: dapd

لیبیا میں سن 1967 میں قذافی کی فوجی بغاوت کے بعد  سارے ملک میں مقیم 38 ہزار یہودیوں کو جبری مہاجرت پر مجبور کردیا گیا تھا۔ ان یہودیوں کی جائیدادوں کو ضبط کر لیا گیا تھا۔ طرابلس میں بہت سارے یہودی معبد خانوں کو یا تو مسمار کردیا گیا تھا یا پھر انہویں مساجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی طرح یہودی قبرستانوں کا بھی مکمل طور پر صفایا کر کے ان کی جگہوں پر عمارتیں کھڑی کردی گئی تھیں۔ ان یہودیوں کو عرب اسرائیل جنگ کے بعد قذافی نے انتقاماً بیدخل کیا تھا۔

انہی جبری یہودی مہاجرین میں بارہ سالہ ڈیوڈ گربی بھی تھا۔ وہ اب اٹلی میں مقیم ہے اور سائیکو تھراپی کے شعبے سے وابستہ ہے۔ گربی لیبیا کے یہودیوں کی عالمی تنظیم کا بھی رکن ہے۔ گاربی نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ قومی عبوری کونسل کے ساتھ شریک ہو کر اپنے بچپن کے لیبیا کی تعمیر نو کے عمل میں شریک ہونا چاہتا ہے۔

Große Synagoge Budapest Ungarn
بوڈا پیسٹ کا یہودی معبد گاہتصویر: picture-alliance/Godong

ڈیوڈ گربی نے لیبیا کے دارالحکومت پہنچ کر وہاں کے مسلمانوں سے ملاقات کی۔ گاربی کی یہ بھی خواہش ہے کہ لیبیا کے یہودی واپس لوٹ کر اسی ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں جس انداز میں مراکش میں یہودی اور مسلمان رہ رہے ہیں۔ گربی کو بعض لوگوں نے کہا کہ اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے، لیکن اس کا اصرار تھا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ وہاں ان کی جائیداد اور معبد خانہ اب بھی موجود ہے۔

 طرابلس میں قیام کے دوران ڈیوڈ گربی قومی عبوری کونسل کے اہلکاروں سے ملاقاتوں کے سلسلے میں بھی مصروف رہا۔ ان ملاقاتوں میں وہ اس پر فوکس کیے ہوئے تھا کہ کس طرح لیبیا سے بیدخل کیے گئے یہودی کی دوبارہ آباد کاری ممکن ہے۔

وہ اس سے قبل بھی لیبیا کا دورہ کرچکا ہے۔ سن 2007 میں قذافی حکومت نے گاربی کوحراست میں لے کر پوچھ گچھ بھی کی ۔ رواں برس کے شروع میں اس کے طرابلس میں قیام کے دوران قذافی کے حامیوں نے اس  کے ہوٹل کے کمرے میں زبردستی داخل ہوکر اسے ہلاک کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ گربی قومی عبوری کونسل کے اہلکاروں کے ساتھ بن غازی میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور تیمارداری میں بھی مصروف رہا۔ لیبیا کے مسلمان اسے باغی یہودی کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔  

NO FLASH Libyen Nationaler Übergangsrat Mustafa Abdel Jalil
مصطفیٰ عبد الجلیلتصویر: dapd

بہت سارے لیبیائی یہودی ڈیوڈ گربی کے تصور کے حامی  نہیں ہیں۔ اسے اپنے خاندان میں بھی مخالفت کا سامنا ہے۔ گربی قومی عبوری کونسل کے رہنما مصطفیٰ عبدالجلیل سے متاثر ہے کیونکہ وہ پہلی بڑی شخصیت تھی جس نے قذافی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ وہ طرابلس میں اپنی ضبط شدہ جائیداد کی یازیابی کی اپیل بھی دائر کرنے کا سوچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ قومی عبوری کونسل میں شمولیت کی بھی شدید خواہش رکھتا ہے۔ آج کل لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے قدیمی شہر کے مکانوں کی فصیلوں پر جگہ جگہ قومی عبوری کونسل کے پرچم آزادی کو لوگوں نے لہرا رکھا ہے۔ اسی قدیمی شہر میں اجڑے ہوے زردی مائل شہابی رنگت والا یہودی معبد خانہ ویرانی کا شکار ہے۔ ڈیوڈ گربی اس سائناگوگ کی دوبارہ تزیئن و آرائش کا متمنی ہونے کے علاوہ اسے لیبیا کے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت کا نشان بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

رپورٹ:  عابد حسین

ادارت:  افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں