1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کی نئی حکومت کو اہم چیلنجوں کا سامنا

24 اکتوبر 2011

لیبیا میں قذافی کے 42 سالہ دور حکومت کے خاتمے کے بعد قومی عبوری کونسل نے مکمل آزادی کا اعلان کر دیا ہے مگر اب سب سے بڑا مسئلہ مختلف مسلح گروہوں کو منتشر کرنا اور عوامی امنگوں کی ترجمان ایک متنوع جمہوری حکومت کا قیام ہے۔

https://p.dw.com/p/12xoT
تصویر: dapd

قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفٰی عبدالجلیل نے پیر کو کہا ہے کہ لیبیا میں نئی عبوری حکومت کے قیام کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور اس حوالے سے فیصلہ آئندہ دو ہفتوں میں متوقع ہے۔ اختتام ہفتہ پر مستعفی ہونے والے عبوری وزیر اعظم محمود جبریل کی روانگی کے بعد ایک اہم مسئلہ نئی حکومت کے قائد کو منتخب کرنا ہے۔

عبوری کونسل کے لیے سب سے اہم امتحان لیبیا کی 60 لاکھ آبادی کی توقعات پوری کرنا ہیں۔ Cross Border Information نامی ادارے کے ایک ماہر جون ہیملٹن نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’اب سے پہلے عبوری کونسل کے پاس یہ عذر تھا کہ لڑائی جاری ہے لیکن اب وہ مزید یہ نہیں کہہ سکتے۔ اب انہیں عوامی توقعات کو پورا کرنا ہو گا۔‘‘

Befreiungsfeier in Libyen
قومی عبوری کونسل کے سربراہ مصطفٰی عبدالجلیل نے کہا ہے کہ لیبیا میں نئی عبوری حکومت کے قیام کے حوالے سے فیصلہ آئندہ دو ہفتوں میں متوقع ہےتصویر: dapd

قذافی کی ہلاکت اور مزاحمت کرنے والے جنگجوؤں کے آخری مضبوط گڑھ سرت پر قبضے کے بعد پورا ملک عبوری کونسل کی حکومت کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔ تاہم بعض مبصرین نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ابھی مزید کچھ عرصے سے تک عدم استحکام رہ سکتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں شمالی افریقہ کے امور کے ایک ماہر جارج جوف نے کہا، ’’مستقبل قریب میں تو نہیں لیکن مستقبل میں بعض لوگ قذافی کی موت کو شہادت قرار دیتے ہوئے باغی یا قبائلی تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایک اور تشویش ناک امر یہ ہے کہ قذافی کی موت کے لیے نیٹو کو مؤرد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے جس سے قومی عبوری کونسل کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔

تاہم عبوری حکام کے لیے شاید اس سے بھی بڑا مسئلہ قذافی مخالف مختلف مسلح گروہوں کو اپنے زیر کنٹرول لانا ہے جو نئے لیبیا کے وسائل اور سیاسی نمائندگی میں اپنا اپنا حصہ چاہتے ہیں۔

Kämpfe in Libyen
عبوری حکام کے لیے ایک بڑا مسئلہ قذافی مخالف مختلف مسلح گروہوں کو اپنے زیر کنٹرول لانا ہےتصویر: dapd

Frontier MEA نامی تحقیق و مشاورتی فرم کے ماہر الیکس وارن کا قومی عبوری کونسل کے پرچم تلے جمع جنگجوؤں کے بارے میں کہنا ہے کہ انہیں احتیاط سے منتشر کرنے یا مسلح افواج میں ضم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں اہم سوالات یہ ہیں کہ یہ جنگجو کس کو جوابدہ ہیں، ان کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور ان کے کیا مطالبات ہیں۔

ایک اور اہم چیز سابق رہنما معمر قذافی کی ہلاکت کے حالات ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر معمر قذافی کی گرفتاری کی بجائے ہلاکت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پلے نے قذافی کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر انسانی حقوق کے ایک اور بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے سرت میں قذافی کے حامی 53 افراد کی لاشیں ملنے کے حوالے سے کہا ہے کہ ان میں سے بعض افراد کے ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے اور بظاہر انہیں قتل کیا گیا ہے۔ ادارے نے لیبیا کی نئی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس جرم کی تحقیقات کی جائیں۔

رپورٹ: حماد کیانی/خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں