1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لندن پولیس میں نسل پرستی، جنسی تعصب کا انکشاف

21 مارچ 2023

ایک رپورٹ کے مطابق لندن میٹروپولیٹن پولیس کے عملے اور افسران کو ادارہ جاتی نسل پرستی، جنس کی بنیاد پر تعصبانہ رویے اور ہوموفوبیا کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں محکمہ پولیس میں تبدیلی اور اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4OzQG
UK London Metropolitan Police
تصویر: Mateusz Slodkowski/Zumapress/picture alliance

ایک آزادانہ جائزے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس میں ادارہ جاتی نسل پرستی، خواتین اور ہم جن پرستی کے خلاف تعصبانہ رویہ عام ہے۔ تین سو سے زائد صفحوں پر مشتمل اس رپورٹ میں پولیس میں "نظامی اور بنیادی مسائل" کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے حل کے لیے اس ادارے میں جامع اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ ہاؤس آف لارڈز کی رکن اور سابق برطانوی سرکاری عہدیدار بیرونس لوئس کیسی نے مرتب کی ہے۔ انہوں نے اس پر کام گزشتہ برس فروری میں شروع کیا تھا۔ بیرونس کیسی نے اپنی رپورٹ میں لندن پولیس کے محکمے میں پریشان کن رجحانات کی شناخت کی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق پولیس کے محکمے میں عملے اور افسران کو ادارہ جاتی نسل پرستی، جنس کی بنیاد پر تعصبانہ رویے اور ہوموفوبیا کا سامنا ہے جبکہ محکمے سے باہر مختلف کمیونیٹیز کے ساتھ بھی پولیس ایسا ہی سلوک کرتی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بچوں اور خواتین کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ اس حوالے سے اس رپورٹ میں لکھا گیا کہ محکمہ پولیس میں خواتین افسران و عملے کو عموماﹰ تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ تنقید کی صورت میں پولیس میں "دفاعی طرز عمل" پایا جایا ہے، جس کے باعث متعلقہ حکام اس ادارے کو درپیش مسائل کی سنگینی کو سمجھ نہیں پا رہے اور یہ محکمے کی اصلاح کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس رپورٹ میں پولیس کے فنڈز میں کمی اور مقامی پولیس اسٹیشنز کے بند کیے جانے کو ایسے عوامل قرار دیا گیا ہے جن کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔

بیرونس کیسی کا کہنا ہے کہ پولیس کو خود کو بدلنا ہو گا اور "یہ عوام کی ذمےداری نہیں کو وہ خود کو پولیس سے محفوظ رکھیں بلکہ عوام کی حفاظت پولیس کی ذمے داری ہے۔"

پولیس کا ردعمل

اس رپورٹ کے جواب میں لندن میٹروپولیٹن پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس کو پولیس کے محکمے کی اصلاح میں تیزی کا سبب بننا چاہیے۔

اس حوالے سے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر مارک راؤلی کا کہنا تھا، "ہم نے لوگوں کو مایوس کیا ہے اور میں نے (کمشنر بننے کے بعد) ابتدا کے دنوں میں لندن کے شہریوں اور اپنے لوگوں سے جو معافی مانگی تھی وہ میں دوہرا رہا ہوں۔ میں معافی چاہتا ہوں۔"

انہوں نے کہا کہ بیرونس کیسی کی رپورٹ نے "غصے، فرسٹریشن اور شرمندگی جیسے کئی جذبات کو ابھارا ہے لیکن ساتھ ہی (تبدیلی) کا عزم بھی پیدا کیا ہے۔"

راؤلی نے زور دیا کہ اس رپورٹ کو پولیس کے محکمے میں با معنی تبدیلی کا سبب بننا چاہیے کیونکہ یہ اگر صرف افسران کی اکثریت کی تنقید اور الزام تراشی کی وجہ بنے گی تو اس سے صرف مجرمان کو فائدہ ہوگا۔

اس جائزے کی ذمےداری بیرونس کیسی کو 2021ء میں لندن پولیس کی سابق سربراہ کریسڈا ڈک نے سونپی تھی۔ یہ اقدام انہوں نے سارا ایڈورڈ نامی ایک خاتون کے ریپ اور ان کے قتل کے جرم میں ایکپولیس اہلکار وین کوزینز کو سزا سنائے جانے کے بعد کیا تھا۔

سارا ایڈورڈ کے کیس کے بعد سے اس قسم کے کئی اور کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں سابقہ پولیس آفیسر ڈیوڈ کیرک کو 2002ء کے متعدد جنسی زیادتی اور ریپ کے کیسز میں گزشتہ ماہ سنائی جانے والی عمر قید کی سزا شامل ہے۔

م ا/ ع ا (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)