1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور: کہیں احتجاج، کہیں مٹھائیاں

6 جولائی 2018

پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور ان کے داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کو احتساب عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/30xSe
Pakistan Konvoi von Nawaz Sharif
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں لاہور پریس کلب کے سامنے مسلم لیگ نون کے کارکن بڑی تعداد میں جمع ہیں اور فیصلہ نامنظور کے نعرے لگا رہے ہیں۔ پریس کلب کے باہر یہ فیصلہ سنتے ہی مسلم لیگ نون کی خواتین آبدیدہ ہو گئیں اور انہوں نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ ادھر ماڈل ٹاون میں بھی سڑکوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کیا جا رہا ہے، مری اور کئی دوسرے شہروں سے بھی احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

دوسری طرف لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکن ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ پارٹی کے مرکزی دفتر میں جشن کا سا سماں ہے اور مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی دفتر میں بھی جشن جاری ہے۔

پنجاب میں سیکورٹی سخت

امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ لاہور میں داخلے کے تمام راستوں پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور اس کے علاوہ اہم اور حساس عمارتوں پر پولیس کی اضافی نفری تعینات ہے۔

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں

سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو دس برس قید کی سزا

احتساب عدالت کا فیصلہ مسترد

پاکستان مسلم لیگ نون نے احتساب عدالت کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ جمعے کی سہ پہر احتساب عدالت کے فیصلے کے فوری بعد لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی صدر میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ اس فیصلے کو تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پورے مقدمے میں قانونی دستاویزات فراہم نہیں کی گیئں اور یہ فیصلہ نا انصافی پر مبنی ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا نام پانامہ میں نہیں تھا۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، ایٹمی دھماکے، سی پیک اور کشمیر کے حوالے سے نواز شریف کی خدمات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دینے والے اور ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والی شخصیت کو سزا سنا دی گئی ہے۔ ان کے بقول نیب نے تو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے لیکن اس فیصلے کے حوالے سے پاکستان کے عوام 25 جولائی کو اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ملک کے کونے کونے میں جا کر نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے لوگوں کو آگاہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب یک طرفہ کارروائیاں کر رہی ہے اور دوسرے لوگوں کے خلاف بہت سے مقدمات میں فیصلے نہیں کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مسلم لیگ نون کے حامیوں کو کہا کہ وہ اس فیصلے سے دلبرداشتہ نہ ہوں۔ ’’نواز شریف نے اس ملک کی خدمت کی ہے، وہ سزا کے حقدار نہیں تھے۔ انصاف سب کے ساتھ برابر ہونا چاہیے، قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے، انصاف سب کو ملنا چاہیے۔ اس فیصلے کے وقت کا انتخاب الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش لگتی ہے۔ یہ فیصلہ انسانی حقوق کے بھی منافی ہے، نواز شریف کی بیمار اہلیہ کی علالت کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔‘‘

نواز شریف اپیل میں جا سکتے ہیں

ممتاز ماہر قانون سعد رسول ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کے پاس اب آپشن یہ ہے کہ وہ اگلے تیس دنوں کے اندر اندر اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے انہیں پاکستان آنا ہوگا۔ جبکہ نیب کے پراسیکوٹر کے مطابق نواز شریف کو اگلے دس دنوں میں اپیل دائر کرنا ہو گی۔

 ہفتے اور اتوار کو پاکستان کی عدالتیں تعطیلات کی وجہ سے بند ہوں گی۔ اگر فوری اپیل بھی کی گئی تو وہ سوموار سے پہلے نہیں کی جا سکے گی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا نیب کیسز میں ضمانتوں کا حصول آسان نہیں ہوتا۔ اب عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہونے والی نئی قانون سازی کے مطابق برطانیہ سے نواز شریف کے اثاثوں کو پاکستان کے زیرانتظام لانے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہ تاثر درست ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلے کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، اس پر سعد رسول کا کہنا تھا کہ نواز شریف خود اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہے ہیں، اگر انہوں نے رائے بدل لی ہے تو پھر انہیں ہی اندازہ ہو گا۔ کہ ان کے ساتھ کون کیا کر رہا ہے۔

مریم نواز شریف الیکشن سے باہر

احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد مریم نواز شریف الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہو گئی ہیں۔ ان ان کے متبادل امیدوار این اے 127 لاہور سے علی پرویز ملک حصہ لیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس فیصلے سے پاکستان مسلم لیگ نون کی الیکشن مہم کو بہت دھچکا لگا ہے۔ مسلم لیگی کارکن اس وقت دفاعی پوزیشن پہ دکھائی دے رہے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف اپنی الیکشن مہم میں اس فیصلے کو شریف فیملی اور مسلم لیگ نون کے خلاف زوردار طریقے سے استعمال کرے گی۔

کیا شریف خاندان کی سیاست ختم ہو گئی؟

پاکستان مسلم لیگ نون سے ہم دردی رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ اس فیصلے کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے اس سے نون لیگ کے  لیے ہم دردی کے ووٹوں میں اضافہ ہوگا۔

ایک دفاعی تجزیہ نگار برگیڈئیر(ر) فاروق حمید خان کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کی سیاست بڑی حد تک اپنے انجام کو پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے بقول، ’’اس فیصلے نے پاکستان کے مستقبل کے حکم رانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ اب کرپشن کرنے والوں کو احتساب کا ضرور سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کی بیک چینل بات چیت کے ذریعے کسی این آر او کا کوئی امکان اس لیے نہیں ہے کیونکہ این آر او پاکستان میں اب گالی بن چکا ہے۔

سیاسی بحران آنے والا ہے؟

پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی ملاقات میں بتایا کہ پاکستان ایک بڑے سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ بحران الیکشن کے بعد مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ خاص طرح کے فیصلوں سے ایک سیاسی پارٹی کو نقصان ہو رہا ہے اور اس سے انتخابی عمل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان کے بقول مسلم لیگ نون کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، اب ایسا ہی کھیل سندھ میں کھیلا جائے گا۔ یہ صورت حال عمران خان کے حق میں بھی نہیں جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پاپولر وزرائے اعظم کو ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ان کے بقول مسلم لیگ نون کو وقتی طور پر تو نقصان پہنچے گا لیکن پاکستانی سیاست سے شریف فیکٹر کو نہیں نکالا جا سکے گا۔