1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لال بہادر شاستری: جن کی اچانک موت پر ایوب خان بہت غم زدہ تھے

11 جنوری 2023

یہ دس جنوری انیس سو چھیاسٹھ کی ایک ٹھٹھرتی رات تھی جب بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاکستانی صدر ایوب خان کی طرف گرم جوشی سے ہاتھ بڑھایا تھا۔ یہ الوداعی مصافحہ تھا جس کے ساتھ دونوں نے ایک دوسرے سے رخصت لی تھی۔

https://p.dw.com/p/4M04K
Lal Bahadur Shastri und Ayub khan
دائیں سے بائیں، تاشقند میں: سوویت رہنما کوسیگین، پاکستانی صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستریتصویر: Imago Images/United Archive

اس الوداع کے محض چند ہی گھنٹے بعد شاستری ابدی نیند سو چکے تھے اور صدر ایوب ان کے بستر کے پاس کھڑے غم کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اگلے دن شاستری کی میت کو کندھا بھی دیا تھا۔ وہی شاستری جن سے چند روز پہلے تک ایوب خان ہاتھ ملانے تک کو تیار نہ تھے۔

بھارتی ریاست کیرالہ میں بینظیر بھٹو کی تصویروں والے پوسٹر

شاستری سے متعلق شائع ہونے والی اولین کتابوں میں سے ایک کے مصنف ڈی آر مانکیکر نے مختلف مقامات پر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ شاستری کے چھوٹے قد والے وجود، کمزور آواز، غیر جارحانہ لب و لہجے اور سادگی پسند طبیعت نے ان کے ساتھی سیاست دانوں کی طرح بعض اوقات ان کے مخالفین کو بھی دھوکہ دیا تھا۔

کلدیپ نیئر نے اپنی کتاب 'بِٹوین دی لائنز‘ کے آغاز میں کانگریس کے سنڈیکیٹ گروپ کی اس میٹنگ کا مفصل احوال بیان کیا ہے، جس میں نہرو کے بعد شاستری کو بھارت کا اگلا وزیر اعظم بنوانے کی بات طے کی گئی تھی۔ جب اس میٹنگ کا مرار جی ڈیسائی کو علم ہوا تو انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے کہا، ”انہوں نے مجھے اس دوڑ سے باہر رکھا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شاستری کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا آسان ہو گا۔" بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ شاستری پر اثر انداز ہونا آسان نہیں تھا۔

’تو یہ ہے وہ شخص جس نے نہرو کی جگہ لی ہے؟‘

پنڈت جواہر لال نہرو اپنی سیاسی قامت کے اعتبار سے عالمی سطح کے رہنما تھے۔ دوسری طرف اپنی تمام تر سیاسی جدوجہد، دیانت داری اور احترام کے باوجود شاستری بہت سے لوگوں کے نزدیک ایک ’غیر متاثر کن‘ شخصیت تھے، اور اس بات کا ذکر تاریخ کی کئی کتابوں میں ملتا ہے۔

نامور مؤرخ اور دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف رام چندر گوہا اپنی کتاب 'انڈیا آفٹر گاندھی‘ کے باب 'جنگ اور جانشینی‘ میں اس حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے پاکستانی ہندوؤں کی بڑی خواہش پوری کردی

Lal Bahadur Shastri und Ayub khan
بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری پاکستانی صدر ایوب خان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئےتصویر: picture alliance/United Archive

ناوابستہ تحریک کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد قاہرہ سے واپس آتے ہوئے ایوب خان کی دعوت پر شاستری تقریباً پانچ گھنٹے کے لیے کراچی رکے تھے۔ تب پاکستانی صدر نے خود ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا تھا اور بعد میں دونوں کے مابین نوے منٹ تک اکیلے میں ملاقات ہوئی تھی۔ رام چندر گوہا لکھتے ہیں، ”ایوب خان نے ٹائی لگا رکھی تھی جبکہ شاستری دھوتی باندھے ہوئے تھے۔ ایئر پورٹ پر ایوب خان نے اپنے ایک ساتھی سے کہا: تو یہ ہے وہ شخص جس نے نہرو کی جگہ لی ہے۔‘‘

شاستری پر 'اثر انداز ہونا آسان نہ تھا‘

پاکستانی سفارت کار اور تاشقند جانے والے وفد کے رکن اقبال اخوند اپنی کتاب 'میموریز آف بائی سٹینڈر، اے لائف اِن ڈپلومیسی‘ میں کئی بار شاستری کے 'چھوٹے قد، دھوتی اور سادہ طبیعت‘ کا طنزیہ انداز میں ذکر کرتے ہیں۔ مگر ایک موقع پر ان کی بھید بھری شخصیت کے باطن کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی تعریف کیے بغیر بھی نہ رہ سکے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین جوہری اثاثوں کی فہرستوں کا تبادلہ

وہ لکھتے ہیں، ”شاستری کا مختصر اور کمزور وجود ان کے عزم کی پختگی اور بصیرت کے بارے میں دھوکہ دے سکتا ہے، جس کا اظہار جنگ کے دوران ہوا۔ انہوں نے جب اور جس جگہ کا پہلے سے کہا تھا، وہیں اور اسی طرح نشانہ لیا گیا۔ یہی قابلیت اس وقت بھی سامنے آئی جب انہوں نے تاشقند میں مذاکرات کی قیادت کی۔"

ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ اپنی ذات کے ظاہری تاثر کے برعکس شاستری ایسی شخصیت تھے جن پر ”اثر انداز ہونا آسان نہ تھا۔"

جب ایوب خان شاستری سے ہاتھ بھی نہیں ملانا چاہتے تھے

1965ء کی جنگ کے بعد سوویت یونین کی میزبانی میں پاکستان اور بھارت کے مابین تاشقند میں امن مذاکرات ہوئے، جن میں پاکستانی وفد کی قیادت صدر ایوب خان اور بھارتی وفد کی قیادت وزیر اعظم لال بہادر شاستری کر رہے تھے۔

پاکستان اقلیتی ہندو برادری کو تحفظ فراہم کرے، بھارت

Lal Bahadur Shastri und Ayub khan
تاشقند میں پاک بھارت امن مذاکرات کے لیے ثالثی سوویت یونین نے کی تھیتصویر: picture alliance/United Archive

سول سرونٹ اور تاشقند جانے والے بھارتی وفد کے رکن سی پی شری واستو نے شاستری پر 'اے لائف آف ٹروتھ اِن پالیٹکس‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

شری واستو سابق سوویت سفارت کار اور محکہ خارجہ کے افسر زامیاتِن کی زبانی ایک واقعہ تحریر کرتے ہیں، ”ایوب نے شاستری کے بارے میں چند نامناسب الفاظ ادا کرتے ہوئے سوویت وزیر اعظم کوسیگین سے کہا کہ میں اس سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔"

اس پر اپنے فوری ردعمل میں غصے سے سرخ کوسیگین نے زور دے کر ایوب سے کہا، ''آپ شاستری کے ساتھ امن مذاکرات کی دعوت قبول کر کے تاشقند آئے ہیں اور اپنے ملک کی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے وہ بھی برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔" اس کے بعد چار سے دس جنوری تک مذاکرات کے کئی دور ہوئے اور پھر بالآخر دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین نو نکات پر اتفاق ہو گیا۔

بھارت پاکستان اور چین کی سرحد پر بیلسٹک میزائل تعینات کرے گا

تاشقند معاہدے کے بعد شاستری اور ایوب دونوں بہت خوش تھے۔ دس جنوری کی صبح نو بج کر 45 منٹ پر ہونے والی آخری ملاقات میں شاستری نے کہا تھا، ''اچھا ہی ہو گیا۔‘‘ تب ایوب خان نے جواب دیا تھا، ''خدا کرے اچھا ہی رہے۔‘‘ چند گھنٹے بعد ہی بعد دوپہر ایک بج کر 32 منٹ پر شاستری موت سے گلے مل چکے تھے۔

کلدیپ نیئر کے بقول صدر پاکستان نے شاستری کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا، ”یہاں ایک ایسا شخص لیٹا ہے، جو بھارت اور پاکستان کو قریب لا سکتا تھا۔"

شاستری کی موت پر ایوب خان بہت غم زدہ

اس روز سہ پہر تقریباً تین بجے صدر ایوب خان شاستری کی میت دیکھنے گئے۔ انہوں نے بھارتی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ بہت افسوسناک موقع ہے۔ جب میں نے ابھی صبح ہی ان کی موت کا سنا تو مجھے گہرا صدمہ ہوا۔ ہم دونوں کے درمیان بہت اچھی ہم آہنگی پیدا ہو چکی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ امن کے خواہاں تھے۔" شری واستو کے بقول ایوب خان کے چہرے پر افسوس اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔

انسداد دہشت گردی کانفرنس میں مودی کا پاکستان پر بالواسطہ حملہ

جب شاستری کی میت کو دہلی بھیجنے کے لیے ہوائی اڈے پر لے جایا گیا، تو ایوب خان پہلے سے وہاں انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے سوویت وزیر اعظم کوسیگین کے ساتھ مل کر میت کو کندھا دیا۔

ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے ایوب خان کا ایک لمحاتی تاثر سمجھنے کی غلطی کریں مگر ایک اور واقعہ اس امکان کی تردید کرتا ہے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد 1972ء میں جب کلدیپ نیئر کی ایوب خان سے ملاقات ہوئی، تو دوبارہ یہی موضوع زیر بحث آیا۔ کلدیپ نیئر نے پوچھا، ''کیا آپ آج بھی شاستری کی امن کے لیے مخلصانہ لگن پر ویسا ہی یقین رکھتے ہیں؟‘‘ اس پر ایوب خان نے اپنی پرانی بات دوہراتے ہوئے کہا، ”ہاں، مجھے آج بھی یقین ہے کہ ان کے ذریعے ہم پائیدار امن حاصل کرنے میں کامیاب رہتے۔"