1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قندوز میں شہری ہلاکتیں، یورپ میں بحث کا موضوع

9 ستمبر 2009

افغانستان ميں طالبان کے قبضے ميں آجانے والے پيٹرول ٹينکرز پر بمباری کے واقعے کے بعد افغانستان ميں بين الاقوامی فوج کی کارروائی کے بارے میں یورپ میں ايک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/JZ2W
تصویر: dpa

نيٹو کے اندر بھی اس بارے ميں اختلاف رائے پايا جاتا ہے اور جرمن وزير دفاع نے اس واقعے کے بارے ميں جس طرح اطلاعات فراہم کيں اس پر تنقيد کی جارہی ہے۔ افغانستان ميں پيٹرول سے لدے ٹينکرز پر جرمن کمانڈر کی درخواست کے بعد نيٹو کی بمباری کے سلسلے ميں بہت سے سوالات جواب طلب ہيں۔ فضائی حملے کا فيصلہ کيوں کيا گيا؟ کيا اس کے علاوہ کوئی راستہ،کوئی متبادل نہيں تھا؟ مرنے والوں ميں شہريوں کی تعداد کتنی ہے؟

اندازہ ہے کہ ان سوالات کے جوابات ملنے ميں ابھی کئی دن لگيں گے۔ ابہام کی اس فضا ميں اس واقعے سے پيدا ہونے والے تاثرات کو اور تقويت ملے گی۔ ايک تاثر يہ ہے کہ افغانستان ميں جن ملکوں کی فوجيں تعينات ہيں ان کے درميان اختلافات اس سے زيادہ ہيں جتنا کہ اب تک معلوم تھا۔ جرمنی کے اتحادی، امريکہ اور برطانيہ، جرمن فوج پر تنقيد کررہے ہيں حالانکہ ابھی تک قندوز ميں بمباری کی تحقيقات کے نتائج سامنے نہيں آئے ہيں۔ اسی طرح جرمن فوج بھی امريکی فوج پر الزام لگا رہی ہے کہ وہ افغانستان ميں جرمنی کو بدنام کررہی ہے۔

Bildgalerie Nach den Wahlen Presseschau
جرمن اخبارات میں قندوز کے واقعے پر تبصرے شائع ہورہے ہیںتصویر: AP

اس تنازعے پر ميڈيا ميں بيانات دئے جارہے ہيں اور اس طرح افغانستان کے عوام تک بھی يہ باتيں پہنچ رہی ہيں۔اس کے نتيجے ميں افغان عوام ميں جمہوری عمل پر اغتماد کم ہورہا ہے اور يہ اعتماد جمہوريت کی کاميابی کے لئے اہم ترين شرط ہے۔ نيٹو کے اتحاديوں ميں يہ بحث آرائی طالبان کو پراپيگنڈے کے لئے ايک اچھا موقع فراہم کررہی ہے۔

قندوز کے واقعے سے يہ پيغام بھی ملتا ہے کہ طالبان افغانستان کے شمال ميں بھی موجود ہيں جسے اب تک محفوظ سمجھا جاتا تھا اور يہ کہ جنہيں وہاں سلامتی اور حفاظت کا کام انجام دينا ہے وہ صرف شديد فضائی حملوں کی مدد سےہی اپنا دفاع کرسکتے ہيں۔يہ ايک ايسا منظر ہے جس سے نہ تو جرمن فوج اور نہ ہی مقامی افغان فوج اور پوليس پر اعتماد ميں اضافے ميں مدد مل سکتی ہے۔

اس کے علاوہ افغانستان ميں تعمير نو کے کاموں ميں اہم خدمات انجام دينے والی فوج کی حيثيت سے جرمن فوج کے کردار کو شديد نقصان پہنچا ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔اب جرمن فوجيوں پر حملوں ميں اضافہ ہوگا۔

يہ سب کچھ افغانستان کی صورتحال کے لئے خالص زہر ہے: ايک طرف تو آپس ميں لڑنے والے اتحادی اور بڑھتی ہوئی شہری اموات ہيں اور دوسری طرف فاتح طالبان۔

جرمنی کے انتخابات کے حوالے سے بھی يہ کوئی اچھی صورتحال نہيں ہے۔ افغانستان سے جرمن فوجيوں کی واپسی کا مطالبہ زيادہ ووٹ تو دلا سکتا ہے ليکن يہ افغانستان کےمستقبل کے لئے کوئی قابل قبول حل نہيں ہوگا۔

جو افغانستان ميں ايک بار پھر طالبان کی حکومت کو گوارا کرنا چاہتا ہے اسے ان کی حکومت کے دور کو نظروں کے سامنے لانا ہوگا۔ 11ستمبر قريب ہی ہے اور اس کے حوالے سے اتحادی ملکوں پر يہ واضح ہونا چاہئے کہ افغانستان ميں ان کا حقيقی حريف کون ہے۔

تبصرہ: سبيلے گولٹے /شہاب احمد صديقی

ادارت: کشور مصطفٰی