1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

020311 Interview Lüders Libyen Militäroption

4 مارچ 2011

ڈوئچے ویلے کی عربی سروس کے حسن زنیند نے مشرقِ وُسطیٰ کے امور کے جرمن ماہر مشائیل لُوڈرز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے خلاف فوجی کارروائی کے امکانات پر بات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/10TOS
نہر سویز سے گزرتا امریکی بحری بیڑہتصویر: AP

سوال: قذافی کے خلاف ممکنہ فوجی مداخلت کے آثار نظر آ رہے ہیں، کم از کم دھمکیوں کی حد تک۔ کیا آپ کے خیال میں اِس طرح کی کارروائی کے امکانات موجود ہیں؟

جواب: اِس بارے میں باتیں تو ہو رہی ہیں لیکن میرا نہیں خیال کہ امریکی یا یورپی لیبیا میں فوجی مداخلت کرنے پر تیار ہوں گے۔ وہ اِس لیے کہ یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ کسی ایسی جنگ میں ملوث ہو جائیں، جس کے نتائج سرِدست غیر واضح ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ممکن نظر آتا ہے کہ نو فلائی زون قائم کر دیے جائیں۔

سوال: فوجی مداخلت کے ساتھ کونسے خدشات اور خطرات جڑے ہیں اور آیا باغی بھی واقعی یہ مداخلت چاہتے ہیں؟

Nahost Experte Michael Lüders
مشرقِ وُسطیٰ کے امور کے جرمن ماہر مشائیل لُوڈرزتصویر: picture-alliance/ dpa

جواب: اب تک تو لیبیا کی اپوزیشن یہی کہہ رہی ہے کہ وہ فوجی مداخلت نہیں چاہتی اور یہ کہ وہ مسائل کو خود ہی حل کر سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ اپنے موقف میں تبدیلی لے آئے۔ پھر بھی میرا نہیں خیال کہ مغربی حکومتیں لیبیا میں براہِ راست مداخلت کرنے کے لیے تیار ہوں گی کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کہانی انجام کو کیسے پہنچے گی۔

سوال: بین الاقوامی قانون کی رُو سے فوجی مداخلت کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے اختیارات ملنا ضروری ہیں۔ روس اور چین ایسے کسی فیصلے کو ویٹو کر سکتے ہیں۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر ہی فوجی مداخلت کا فیصلہ کر لیں، جیسے کہ عراق کی صورت میں ہوا؟

جواب: یہ لوگ یقیناً اقوام متحدہ کی طرف سے اختیارات حاصل کرنا چاہیں گے لیکن آج کل کے حالات میں یہ بات حقیقت پسندانہ نظر نہیں آتی۔ فیصلے طے ہونے میں وقت لگ جائے گا اور تب تک شاید لیبیا میں بھی حالات کچھ واضح ہو جائیں گے۔

انٹرویو: حسن زنیند / ترجمہ: امجد علی

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں