1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قبائلی علاقوں اور افغانستان کے درمیان شاہراہ کا اہم منصوبہ

15 اپریل 2011

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جمعرات کو ایک بڑی شاہراہ کی تعمیر کے ایک منصوبے کا افتتاح کیا ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان کے قبائلی علاقے اور افغانستان کو آپس میں ملائے گی۔

https://p.dw.com/p/10txP
ایک پاک افغان رابطہ سڑک
ایک پاک افغان رابطہ سڑکتصویر: AP

پاکستانی فوج کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ جنرل کیانی نے 80 کلومیٹر طویل اِس شاہراہ کی تعمیر کے منصوبے کے افتتاح کے لیے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کا دورہ کیا۔ اِس منصوبے کو پاکستان آرمی عملی شکل دے گی۔

فوج کے بیان کے مطابق یہ شاہراہ پاکستان کے شمال مغربی شہر بنوں سے شروع ہو کر افغان سرحد پر واقع قصبے غلام خان تک جائے گی اور اِس پر چار ارب روپے لاگت آئے گی۔ بیان کے مطابق قبائلی علاقوں کی سماجی ترقی اِس منصوبے کا اصل مقصد ہے۔

یہ شاہراہ شمالی وزیرستان کے دور اُفتادہ علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ملائے گی۔ یہ منصوبہ اٹھارہ مہینوں میں مکمل ہو گا۔ بیان میں کہا گیا ہے:’’یہ شاہراہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا مرکزی روٹ ہو گی اور شمالی وزیرستان کے شہریوں کے لیے امکانات کے کئی در کھول دے گی۔‘‘

شاہراہ کے افتتاح کے موقع پر قبائلی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے جنرل کیانی نے کہا کہ وہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلیوں کی قربانیوں اور حمایت کا اعتراف کرتے ہیں‘۔ کیانی نے اِس عزم کا اعادہ کیا کہ فوج متاثرہ علاقوں میں امن اور استحکام لائے گی اور تمام اندرونی اور بیرونی خطروں کے خلاف قبائلیوں کی جان و مال کا تحفظ کرے گی۔

Pakistans newly appointed Army Chief Gen. Ashfaq Kayani arrives for a change of command ceremony in Rawalpindi, Pakistan on Wednesday, Nov. 28, 2007. Pakistan's President Gen. Pervez Musharraf stepped down from his powerful post as Pakistan's military commander, a day before he was to be sworn in as a civilian president as part of his long-delayed pledge not to hold both jobs. (AP Photo/Anjum Naveed)
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانیتصویر: AP

واضح رہے کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو، جو عملاً حکومت کے کنٹرول سے آزاد ہیں، القاعدہ کا عالمی ہیڈکوارٹر اور کرہ ارض کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک قرار دے چکا ہے۔ القاعدہ اور افغان طالبان کا گڑھ سمجھا جانے والا شمالی وزیرستان کا علاقہ بار بار امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ گزشتہ برس اِن حملوں کی تعداد میں دگنا اضافہ دیکھا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جہاں 2009ء میں 45 حملوں میں 420 افراد ہلاک ہوئے، وہاں 2010ء میں 100 سے زیادہ حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 670 سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔

امریکی حکام پاکستان پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں ایک بڑی فوجی کارروائی شروع کرے تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ اُس کے فوجی دَستوں نے پہلے ہی حد سے زیادہ ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق شمال مغربی پاکستان اور وہاں کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے ایک لاکھ 47 ہزار فوجی سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ تعداد افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ پاکستانی فوج کو اب تک اِس خطّے میں اپنی کارروائیوں کے دوران بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں