1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فٹ بال، مذہب اور سیاست کا ایران میں ایک دوسرے سے کیا جوڑ؟

صائمہ حیدر رونی بلاشکے
20 جون 2018

ایران میں فٹ بال کے کھیل میں مذہب اور سیاست اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم ملک کے متعدد پیشہ ور فٹ بال کھلاڑی ترقی پسندانہ سیاسی اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں جبکہ زیادہ تر مداح فقط اس کھیل سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2zwsq
Iran - WM 2018
تصویر: aftabir

جب ایرانی فٹ بال ٹیم نے ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں مراکش کو زیرو کے مقابلے میں ایک سے شکست دی تھی تو ایرانی قوم خوشی سے بے حال ہو گئی تھی۔ تاہم آیت اللہ خامنائی کے ماتحت ملک کے مذہبی رہنماؤں نے اس جوش و مسرت کو شبے کی نظر سے دیکھا۔

اس سال کے آغاز میں ہوئے مظاہروں کے بعد سے ایرانی مذہبی اشرافیہ بڑے اجتماعات کے حوالے سے کافی محتاط نظر آتی ہے۔

ایران میں انقلاب کے بعد فٹ بال

سن 1979 میں انقلاب ایران کے بعد دیگر کھیلوں کی طرح فٹ بال پر بھی کھیلنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ایرانی مذہبی لیڈر اس کھیل کو اسلامی تعلیمات کے منافی گردانتے تھے۔ تاہم رفتہ رفتہ ایران میں ایک قومی فٹ بال ٹیم تشکیل پائی لیکن ایران عراق جنگ کے دوران تہران حکومت نے اپنی ٹیم پر نیوٹرل گراؤنڈ پر کھیلنے پر پابندی عائد کر دی جس کے باعث فیفا نے ایرانی ٹیم کو معطل کر دیا۔

Masoud Shojaei, Fußballspieler Iran
شجائی کو شائقین کے احتجاج کے بعد فٹ بال ٹیم میں واپس لایا گیاتصویر: Imago/China Foto Press

سن انیس سو اٹھانوے کے فٹ بال ورلڈ کپ میں ایرانی ٹیم نے امریکا کے خلاف شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ایرانی شائقین نے دنیا بھر میں اور خاص طور پر تہران میں اس جیت کی خوشیاں منائیں۔

ایرانی خواتین پر اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے پر پابندی

ایران میں خواتین پر حجاب پہن کر فٹ بال کھیلنے کی اجازت ہے تاہم وہ میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم نہیں جا سکتیں۔ ماضی میں بعض خواتین نے نقلی داڑھی لگا کر یا خود کو چھپا کر فٹ بال میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں داخلے کی کوشش بھی کی۔ تاہم جو پکڑیں گئیں ، انہیں جیل بھگتنا پڑی۔

ایران کے معتدل مزاج حالیہ صدر حسن روحانی نے اپنے پیش رو احمدی نژاد کی طرح ہی یہ تجویز پیش کی ہے کہ خواتین کو مردانہ ٹیموں کے مابین ہونے والے میچ دیکھنے کی اجازت دی جائے تاہم مذہبی رہنماؤں نے اس خیال کو مسترد کر دیا۔

Iran KW09 Fußball
ایران میں خواتین کو میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم جانے کی اجازت نہیںتصویر: BORNA/S. Salimi

ایسے ایرانی فٹ بالر کھلاڑی جو دیگر ممالک کی ٹیموں کے لیے کھیلتے ہیں، عموماﹰ ترقی پسند اور اصلاحات کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ رواں برس عالمی کپ میں ایرانی فٹ بال ٹیم کے کپتان مسعود شجائی نے سن 2009 میں ایران میں چلنے والی گرین موومنٹ کی حمایت کی تھی۔ گرین موومنٹ نے اُس وقت کے ملکی صدر احمدی نژاد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم اس مہم کو حکومت نے بری طرح کچل ڈالا تھا۔

کھیل میں سیاست اور مذہب کا عمل دخل

شجاعی نے اُسوقت ریڈ لائن پار کر لی تھی جب سن 2017 میں انہوں نے یونان کی ٹیم کے کھلاڑی کے طور پر اسرائیلی فٹ بال ٹیم کے خلاف میچ کھیلا تھا۔ ایرانیوں کو اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ شجائی کو ٹیم سے نکال دیا گیا۔ تاہم مداحین کے وسیع پیمانے پر احتجاج کے بعد انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کر لیا گیا تھا۔

 

کرسٹوف بیکر جو برسوں تک جرمن اخبار ’فرانکفرٹر الگمائینے سائٹنگ‘ کے لیے ایران میں مذہب اور کھیلوں کے درمیان تعلق پر رپورٹ دیتے رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ایرانی نظام کو سپورٹ کرنے والے مذہبی اور سیاسی نعرے اکثر کھیل کے اسٹیڈیم میں سنے جا سکتے ہیں۔

بیکر نے اکتوبر سن 2016 میں ایران اور جنوبی کوریا کے درمیان ہوئے ایک میچ کا حوالہ بھی دیا جو مسلمانوں اور خاص طور پر شیعہ مکتبہ فکر کے نزدیک بے حد محترم سمجھے جانے والے اسلامی مہینے محرم کی نو تاریخ کو ہونا تھا یعنی عاشورے سے محض ایک روز قبل۔ ایرانی فٹ بال فیڈریشن تعطیل کے خیال سے اس میچ کو ملتوی کرنا چاہتی تھی لیکن فیفا نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس پر ایرانی مذہبی رہنماؤں نے شائقین کو دوران میچ کالے کپڑوں میں ملبوس رہنے اور تالیاں نہ بجانے کی ہدایات دیں۔ میچ میں عاشورہ کے احترام میں نعرے لگائے گئے۔

ص ح / ا ا