1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فٹ بال جارحانہ کھیل ہے، ’’یہ خواتین کے لیے نہیں‘‘

20 مارچ 2019

دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور میں جرمن خواتین کو فٹ بال کھیلنے کے حوالے سے مختلف پابندیوں کا سامنا تھا۔ تاہم 1970ء کی دہائی میں حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ ایک سابقہ جرمن فٹ بال کھلاڑی اس وقت کو کیسے یاد کرتی ہیں؟

https://p.dw.com/p/3FO4G
Deutschland Frauenfußball-Pionierin Bärbel Wohlleben
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

فٹ بالر بیربل وہول لیبن کی عمر پچھتر برس ہے۔ انہیں آج بھی 1974ء کا وہ لمحہ یاد ہے، جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا تھا کہ جب آپ بال کو ہیڈ کرتی ہیں تو وہ بالوں میں تو نہیں الجھتی؟

اُس وقت وہول لیبن ابھی تیس برس کی تھیں اور انہیں فٹ بال کا اپنا کیریئر شروع کیے صرف تین سال ہی ہوئے تھے۔ کیونکہ 1971ء تک جرمن فٹ بال فیڈریشن ( ڈی ایف بی) نے ٹورنامنٹس میں خواتین کے حصہ لینے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اگر اُس دور میں کوئی فٹ بال کلب خواتین کو تربیت دینے یا کھیلنے کی اجازت دیتا تھا تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

1955ء کے ڈی ایف بی کے ایک فرمان کے مطابق، ’’یہ جارحانہ کھیل خواتین کی فطرت کے مطابق نہیں۔ بال کے حصول کی لڑائی میں خواتین کا نسوانی وقار  مجروح ہوتا ہے، روح اور جسم کو ناگزیر طور پر نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

Freundschaftsspiel Deutschland - Italien in Osnabrück | Torjubel (4:2)
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch

 اس کے علاوہ خواتین کا نیکر پہن کر فٹ بال کھلینا بھی جرمن فٹ بال فیڈریشن کے لیے ایک مسئلہ تھا، ’’جسم کی نمائش سلیقے اور حیا کو ٹھیس پہنچاتی ہے‘‘۔

تاہم ان قوانین کے باوجود بیریل وہول لیبن فٹ بال کھیلتی رہیں۔ دس برس کی عمر میں یعنی یانچ جولائی 1954ء کو انہوں نے پہلی مرتبہ فٹ بال کو کک لگائی تھی۔ یہ وہ دن تھا جب مغربی جرمنی نے پہلی مرتبہ فٹ بال کا عالمی کپ جیتا تھا۔

 بیرن سوئٹزرلینڈ میں کھیلے گئے اس فائنل میچ میں جرمنی نے ہنگری کو تین دو سے شکست دی تھی۔ وہول لیبن اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پڑوسیوں نے ہمیں دعوت پر بلایا تھا اور اس روز پہلی مرتبہ میں نے ٹیلی وژن دیکھا تھا۔ جیتنے کے بعد ہم پاگلوں کی طرح خوشیاں منا رہے تھے اور اس موقع پر میں نے کہا کہ مجھے فٹ بال کھیلنی ہے۔‘‘

Deutschland DFB-Frauen Testspiel in Sandhausen - Deutschland vs. Brasilien
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Anspach

اس کے بعد اگلے چار برسوں تک وہ اسی کلب میں فٹ بال کھیلتی رہیں، جس میں ان کے تینوں بھائی کھیلتے تھے۔ پھر سماجی مسائل کی وجہ سے انہیں اس کھیل کو خیر باد کہنا پڑا۔

 وہ ستائیس سال کی عمر تک ہینڈ بال کھیلتی رہیں۔ بیریل وہول لیبن کبھی بھی ایک بین الاقوامی کھلاڑی نہیں بن سکیں کیونکہ جب مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والی خواتین  نے 1982ء میں سوئس ٹیم کو شکست دے کر پہلی مرتبہ خود کو منوایا تھا، تو اس وقت وہ فٹ بال چھوڑ چکی تھیں۔

1974ء میں جرمنی میں پہلی مرتبہ وومن فٹ بال چیمپئن شپ منعقد ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا،’’وہ ایک مختلف وقت تھا۔1977ء تک کسی بھی جرمن خاتون کو اپنے شوہر کی تحریری اجازت کے بغیر کام کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔‘‘

اب جرمن خواتین کی فٹ بال کے میدان میں ایک جانی مانی ٹیم ہے۔ عالمی رینکنگ میں جرمن وومن ٹیم پہلے نمبر پر بھی رہی جبکہ 2018ء میں یہ دوسرے نمبر پر تھی۔