1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلاحی نظام کو شدید خطرہ، ناروے میں پناہ کے سخت قوانین تجویز

شمشیر حیدر29 دسمبر 2015

ناروے میں برسر اقدار دائیں بازو کی حکومت نے ملک میں پناہ حاصل کرنے کے قوانین سخت کر دیے ہیں۔ ان قوانین کا اطلاق ناروے کی پارلیمان سے منظوری کے بعد کر دیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1HVn6
Tausende Flüchtlinge in Piräus angekommen
تصویر: Reuters/M. Karagiannis

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹوں کے مطابق ناروے میں برسر اقتدار دائیں بازو کی حکومت نے سیاسی پناہ کے سخت قوانین تجویز کر دیے ہیں۔ ناروے کی وزیر برائے مہاجرین، سِلوے لیستھ ہاؤگ کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ناروے کے فلاحی نظام کو ’شدید استحصال‘ سے بچانے کے لیے متعارف کرائے گئے ہیں۔

ناروے کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یہ قوانین نافذ العمل ہو جائیں گے۔ نئے قوانین میں تارکین وطن کے لیے اپنے اہل خانہ کو ناروے بلانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں ناروے میں مستقل سکونت حاصل کرنے کے طریقہ کار کو بھی سخت کر دیا گیا ہے۔

اوسلو حکومت کی جانب سے یہ اقدامات رواں برس تیس ہزار تارکین وطن کی جانب سے ناروے میں پناہ کی درخواست دینے کے بعد کیے گئے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ناروے کی کل آبادی محض اکاون لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

دائیں بازو کی سیاسی جماعت پروگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والی ناروے کی وزیر برائے مہاجرین سِلوے لیستھ ہاؤگ کا مزید کہنا ہے ان کے ملک کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں یورپ میں جاری مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ پناہ گزین آئے ہیں۔ لیستھ ہاؤگ نے یہ بھی بتایا کہ حکومتی اندازوں کے مطابق 2016ء کے دوران دس ہزار سے لے کر ایک لاکھ کی تعداد تک تارکین وطن ان کے ملک میں پناہ کی درخواست دے سکتے ہیں۔

ناروے کی نیوز ایجنسی این بی ٹی سے کی گئی ایک گفتگو میں لیستھ ہاؤگ کا کہنا تھا، ’’اگر اگلے برس آنے والے تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی تو ہمارے فلاحی نظام کا شدید استحصال ہو گا۔‘‘ ناروے کے قوانین کے مطابق مہاجرین اور مقامی شہریوں کو ایک جیسی سہولیات دی جاتی ہیں۔

مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے حکومت کی جانب سے تجویز کردہ ان قوانین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنطیم ’نارویجیئن آرگنائزیشن فار اسائلم سیکرز‘ کے ایک کارکن کا کہنا تھا، ’’حکومت کی جانب سے ایسے تادیبی اقدامات ان تارکین وطن کی زندگی مزید مشکل بنا دیں گے جنہیں تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

Deutschland Norwegen Ministerpräsident Erna Solberg Berlin
ناروے میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد برسراقتدار ہے جس کی قیادت وزیراعظم ایرنا سولبرگ کر رہی ہیں۔تصویر: Reuters

حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی جانب سے مہاجر کا درجہ حاصل کرنے کے قوانین کو سخت کرنے کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مہاجر کا درجہ حاصل کرنے والے تارکین وطن کو دیگر تحفظ کی دیگر اقسام کی نسبت زیادہ مراعات حاصل ہوتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق ان افراد کو مہاجر سمجھا جاتا ہے جنہیں آبائی وطن میں زندگی کا خطرہ ہو۔ اس کے برعکس ناروے کے موجودہ قوانین کے مطابق کئی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تارکین وطن کو مہاجر کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔

عوامی نشریاتی ادارے این آر کے سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں لیستھ ہاؤگ کا کہنا تھا کہ نئے قوانین کا مقصد پناہ کی تلاش میں ناروے کا رخ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔

گزشتہ ماہ اوسلو حکومت نے افغانستان کے اخبارات میں پناہ گزینوں سے متعلق اپنے سخت قوانین کی تشہیر بھی شروع کر دی تھی۔ تارکین وطن کو ناروے آنے سے روکنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیری مہم بھی چلائی گئی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید