1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلائیٹ 8303 اور متاثرین کی ہوا میں معلق عرضیاں

30 اکتوبر 2020

دنیا کی اکثر کہانیاں ’اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے‘ پر اختتام پذیر ہو جاتی ہیں لیکن ان تین بہن بھائیوں اشمیل (ساڑھے چودہ سال)، عنایہ (تیرہ برس) اور عائلین (ساڑھے چار برس) کی کہانی اس الگ سے روایتی جملے سے شروع ہوتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3kdQE
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

یہ تینوں بچے اپنے والد عارف اقبال فاروقی اور والدہ فوزیہ ارجمند اور دادا، دادی کے ساتھ لاہور میں مثالی اور قابل رشک زندگی گزار رہے ہیں۔

 ایک روز (والدہ ) فوزیہ ارجمند کو اپنی والدہ اور بچوں کی نانی سے متعلق اطلاع ملتی ہے کہ بریسٹ کینسر کی صورتحال بگڑ جانے کی وجہ سے ان کے پھیپھڑے بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں اور ڈاکٹرز اس بارے میں کچھ زیادہ پرامید نہیں ہیں۔

فوزیہ ارجمند اپنی والدہ کی طرف سے شدید پریشان ہوتی ہیں کہ ساس سسر اور شوہر تسلی دیتے ہیں کہ تم کراچی جا کر اپنی والدہ کی تیمار داری کرو اور بچوں کی طرف سے بے فکر رہو۔ فوزیہ جانے کی تیاری کرتی ہیں تو عارف اپنی بیگم کو جاتے ہوئے ایک انگوٹھی پہناتے ہیں اور یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں، بچے ساتھ گئے تو وہ تیمار داری نہیں کر سکیں گی اور کورونا کے خطرات کی وجہ سے مریض کا بہت سے لوگوں سے رابطہ بھی مہلک ہو سکتا ہے۔ فوزیہ کراچی جا کر اپنی والدہ کی تیمارداری کرتی ہیں اور ادھر بچے دادا، دادی کے سایہ پرشفقت میں دن گزارتے ہیں۔

 دن کو دادا بچوں سے لڈو میں ہارتے ہیں تو رات کو انہیں کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی عائلین، جو تمام خاندان کی آنکھ کا تارا ہے، وہ کچن میں بھی دادی کی جان نہیں چھوڑتی اور اگر وہ تنہا کام کر رہی ہوں تو انگریزی کا ایک فقرہ دہرا کر ان کے ساتھ کام میں مدد کرتی جاتی ہے۔

اس فقرے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ''جب کوئی مددگار نہ ہو، تو ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘ اور کچن سے باہر بیٹھے عارف اقبال دادی اور پوتی کی اس نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

 فوزیہ واپس لاہور آتیں ہیں تو کچھ دنوں میں اطلاع ملتی ہے کہ ان کی والدہ کے دونوں پھیپھڑے ناکارہ ہو رہے ہیں، وہ چند دنوں کی مہمان ہیں اور وہ فوزیہ اور بچوں سے ملنا چاہتی ہیں۔ عارف اقبال اور ان کے والدین فوزیہ اور بچوں کے ساتھ مل کر دوبارہ کراچی کے سفر کی تیاری کرواتے ہیں اور اس بار پی آئی اے کی فلائیٹ 8303 میں بکنگ کروائی جاتی ہے کہ بروقت پہنچ سکیں۔ 

 بائیس مئی 2020ء  کو عارف اقبال فاروقی اپنی بیوی اور بچوں کو ایئر پورٹ چھوڑ کر اپنے آفس پہنچتے ہیں کہ کچھ دیر بعد گھر سے والدین کی کال آتی ہے کہ فلائیٹ کا نمبر کیا تھا کہ لاہور سے کراچی جانے والا ایک جہاز حادثے کا شکار ہوگیا ہے۔

 عارف جب پتہ کرواتے ہیں تو فلائیٹ کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ اسی جہاز کا کریش ہوا ہے، جس میں انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھیجا تھا۔ اپنے اعصاب کو نارمل رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں کہ والدین بیٹی جیسی بہو اور پوتے پوتیوں کے متعلق کوئی بری خبر برداشت نہیں کر سکیں گے۔

یہاں سے عارف  اور ان تمام متاثرین کی جدوجہد کی وہ کہانی شروع ہوتی ہے، جو اب تک جاری ہے۔کراچی جائے حادثہ پر پہنچ کر عارف اور دیگر لواحقین کو جو پہلی بری خبر ملی وہ یہ تھی کہ امدادی ٹیموں کے بروقت نہ پہنچنے اور آگ بجھانے کے لیے مناسب انتظامات نہ ہونے کی بنا پر جہاز میں قریبا دو گھنٹے آگ لگی رہی۔

 اگر بروقت امداد ہوجاتی تو شاید زندہ بچ جانے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی پر اس حادثے میں صرف دو لوگ زندہ بچے۔

اب جھلسی ہوئی اور مسخ شدہ لاشوں  کی شناخت کا اذیت ناک عمل شروع ہوا اور عارف نے اپنی بیگم کو پہنائی ہوئی اس انگوٹھی کی مدد سے پہچانا اور تیرہ سالہ عنایہ کی لاش بھی مل گئی۔

ایک طرف عارف اپنے دل شکستہ والدین کو سنبھالتے رہے تو دوسری طرف اپنی بیمار ساس کو اس بات کا یقین دلاتے رہے کہ فوزیہ اور بچوں کو کورونا کی وجہ سے آئیسولیٹ کر دیا گیا ہے اور طبعیت کی خرابی کی وجہ سے وہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں۔

لیکن سب سے کڑی آزمائش اشمیل اور عائلین کی تلاش تھی اور اس پر انتظامیہ کا رویہ لواحقین کی لیے مزید تکلیف کا تھا۔ اگلے روز میتوں کو ورثا کے حوالے کرنے کا کام شروع کیا گیا، جس میں بنا کسی پرنٹڈ ڈی این اے رپورٹ کے صرف زبانی کلامی تصدیق کے ذریعے لاشیں بنا کسی ثبوت کے ورثا کو دی جانے لگیں۔

ہمایوں تیمور صاحب، جو ڈینٹل فارنزک سے منسلک ہیں، انہوں نے ورثا کے شور مچانے پر اکیس دن کی ٹائم لائن دی کہ مستند ڈی این اے رپورٹ اسی صورت ممکن ہے۔ غزل بیگ نامی ایک خاتون اپنے بھائی کی میت لینے پہنچیں تو پتہ لگا کہ ان کے بھائی کی میت کسی اور عورت کو ان کی بیٹی کی شناخت کے ساتھ حوالے کی جا رہی تھی۔

اس قدر ابتر حالت دیکھ کر عارف اقبال فاروقی کے ذہن میں اپنی بیٹی کا وہی جملہ آیا کہ ''جب کوئی مددگار نہ ہو تو ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘ اپنی مدد آپ کے تحت عارف اقبال نے ڈی این اے سیمپلز پنجاب فارنزک بھجوائے، جہاں ڈی جی طاہر اشرف کی کاوشوں سے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے بیچ اشمیل اور عائلین کی شناخت بھی ہو گئی، ایک کی باقیات چیپھا اور ایک کی ایدھی سینٹر سے ملیں۔

 یہ میرا عارف اقبال سے پہلا تعارف تھا، جہاں سوشل میڈیا پر گاڑی چلاتے ہوئے ایک آدمی خوشی سے روتے ہوئے یہ بتا رہا ہے کہ میرے اشمیل اور عائلین مل گئے ہیں۔ اس وقت میں صدمے میں تھی کہ ہمارے ملک کا نظام اس قدر ظالمانہ ہے کہ ایک آدمی بچوں کی میتیں ملنے پر شکر کا کلمہ پڑھ رہا ہے۔

 رابطہ ہوا تو پتا چلا کے ڈی این اے ٹیسٹ نہ ہونے اور زبانی کلامی تصدیق کے ذریعے کس طرح میتوں کی حوالگی جاری ہے اور لواحقین مجبور ہیں کہ انہیں جو بھی میت دی جائے وہ بنا سوال کیے اس کو لےجا کر خاموشی سے دفن کر دیں۔

اس ناانصافی کے خلاف لواحقین نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ٹیم بنائی، جس میں عارف اقبال،حسین حسنات، ارسلان، شہریار اور غزل شامل تھے۔ ان لوگوں کی کاوشوں اور پنجاب فارنزک کی مدد سے میتیں اصل لواحقین تک پہنچنا ممکن ہوا ورنہ شروع میں حوالے کی جانے والی میتیں بنا تصدیق کے دفنا دی گئی تھیں۔

دوسرا مرحلہ لیگیج  یا سامان کا تھا۔ رینجرز نے ریسپشن سینٹر پر میڈیا کوریج میں پلین کریش متاثرین کی چیزوں کی، جو تصاویر دکھائیں، ان کی مالیی کافی زیادہ تھی۔ سامان میں پیسے جیولری اور دیگر قیمتی اشیاء شامل تھیں پر، جو سامان لواحقین کے حوالے کیا گیا وہ صرف اے ٹی ایم کارڈز، ایئر رنگز اور دیگر چھوٹی موٹی چیزیں ہیں۔

 اس ناانصافی کے خلاف بھی لواحقین نے رضاکارانہ طور پر ٹیم بنائی، جس میں عاطف امان، کاشف امان، عادل امان، دانش امان اور عارف اقبال شامل ہیں۔ امان برادز اس کریش میں اپنی والدہ کے سایہ شفقت سے محروم ہوئے، ڈی این اے اور لیگیج کے معاملات میں دوسرے لواحقین کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرتے رہے۔

 متاثرین ڈی این اے والی زیادتیوں کے بعد اب لیگیج کے معاملات میں بھی انصاف کے منتظر ہیں اور مئی جون کے مہینے سے لے کر اب تک ان کی درخواستیں اور عرضیاں ہوا میں معلق ہیں۔

 ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ایک سانحہ ہو تو مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر شور اٹھتا ہے، ڈی پیز بدل دی جاتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے بعد اس واقعے سے متاثرہ لوگوں کی خبر گیری نہیں کی جاتی۔

 واقعہ اے پی ایس کا ہو تو شہادتوں کا چورن بیچ کر متاثرین کو چپ کروا دیا جاتا ہے، قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کا اسکینڈل ہو تو خفیہ سازش پر الزام دھر دیا جاتا ہے۔ موٹروے ریپ کیس ہو تو سارا ملبہ عورت کے تنہا سفر کرنے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، پلین کریش ہو تو الزام پائلٹ کے سر جاتا ہے۔

لیکن حادثے کے وقت امدادی ادارے لاشوں پر کس طرح چھینا جھپٹی کرتے ہیں، ڈی این اے کے حوالے سے ذمہ داروں کا سلوک اور ایئر لائن کی غیرذمہ داری پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا؟ ایسے حادثات کو صرف قدرت کا کھیل کہہ کر کارپٹ کے نیچے چھپانا چھوڑیے اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لا کر ان سے سوال کرنے کا کوئی نیا دستور متعارف کروایے۔