1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فحاشی کی اجازت نہیں، ہم سنگاپوریئن ہیں

عاطف توقیر26 نومبر 2015

سنگاپور نے جنسی جذبات کو ابھارنے والی متعدد کتابوں پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا سلسلہ تیزی سے جاری رکھا ہوا ہے، تاہم بالغوں کے لیے شائع کیے جانے والے میگزینز پر پابندی تاحال موجود ہے۔

https://p.dw.com/p/1HCyx
Singapur Skyline mit Hafen
تصویر: picture alliance/Robert Harding World Imagery

سنگاپور میں 18 ویں صدی میں شائع ہونے والی مشہور زمانہ کتاب ’فینی ہل‘ سمیت جنسی جذبات ابھارنے والی متعدد دیگر کتابوں پر پابندی عائد تھی، تاہم حالیہ کچھ عرصے میں یہ پابندیاں تیزی سے ختم کی گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ای پی کے مطابق سنگاپور میں جمہوریہ کے قیام کے بعد سے کسی شخص کو ’فینی ہِل‘ ، نوآبادیات مخالف یا کمیونسٹ مخالف مواد پر مبنی کتاب رکھنےکی اجازت نہیں تھی، تاہم اب یہ پابندی ختم ہو چکی ہے۔

سنگاپور میں اس بات پر بے انتہا زور دیا جاتا رہا ہے کہ اس کے عوام کیا پڑھ رہے ہیں یا کیا دیکھ رہے ہیں۔ تاہم 257 کتابوں پر عائد پابندی اب کم ہو کر صرف 17 تک محدود ہو چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ باقی بچ جانے والی کتابیں اصل میں زیادہ تر وہ میگزین ہیں، جو جنسی مواد سے مرصع ہیں۔

Singapur Skyline mit Hafen
سنگاپور میں متعدد کتابوں اور جریدوں پر پابندی عائد رہی ہےتصویر: Getty Images/AFP/R. Rahman

سنگاپور کی میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی، جو سمندر پار بننے والی فلموں، براڈکاسٹنگ اور انٹرنیٹ کے حوالے سے معیارات طے کرتی ہے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بابت فیصلے روزانہ کی بنیاد پر تجزیات سے کرتی ہے۔ اس اتھارٹی کے مطابق اس تمام عمل کا مقصد ’معاشرتی اقدار‘ کا تحفظ ہے۔

’’17 پبلیکیشنز جو تاحال پابندی کی زد میں ہیں، اب پر پابندی قائم رکھنے کا مقصد یہ بتانے کی کوشش ہے کہ ان میں موجود مواد اب بھی عوامی مفادات کے خلاف ہے۔‘

سنگاپور میں میڈیا کے شعبے کے ایک ماہر مارک سینائٹ کے مطابق، ’’پابندی کی حامل کتابوں کی تعداد میں کمی دراصل گھر صفائی کی ایک مہم تو ہے، تاہم یہ حکومتی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیتی، کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر کتابیں یا تو اب چھپتی نہیں یا ان کی طلب نہیں رہی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’سنگاپور میں قریب ہر شخص ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کا حامل ہے اور حکومت انٹرنیٹ پر موجود مواد پر زیادہ سختی نہیں کرتی بلکہ علامتی طور پر صرف ایک سو ویب سائٹس ہیں، جن پر پابندی عائد ہے۔ اس لیے ان پبلکیشنز پر پابندی بھی ایک طرح سے علامتی عمل ہے۔‘‘