1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاٹا: نوجوان بے روز گاری اور مواقع کی کمی سے دوچار

فریداللہ خان، پشاور
11 اپریل 2018

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سلامتی کی صورتحال ميں بہتری کے سبب مقامی افراد کی ان کے گھروں کی جانب واپسی کے بعد يہ لوگ اب بے روز گاری سے پریشان ہیں۔

https://p.dw.com/p/2vsuL

Pakistan Spezialität Essen
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/A. Arbab

ہزاروں کی تعداد میں قبائلی نوجوان بے روزگار ہيں تاہم حکومت کے پاس انہیں روزگار  فراہم کرنے کے ليے کوئی ٹھوس منصوبہ نہيں۔ ان علاقوں میں صنعتوں اور معاشی سرگرميوں کے فقدان کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کے ليے حکومت کی جانب دیکھتے ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں پے در پے عسکری آپریشن اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے فاٹا کا بنيادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ حالات نے جہاں بنيادی سہولیات کی فراہمی والے اداروں کو تباہ کیا وہاں سرکاری اداروں کو بھی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔

فاٹا سیکريٹيریٹ کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت فاٹا کے مختلف محکموں میں دس ہزار سے زیادہ اسامیاں خالی ہیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان اسامیوں پر بھرتی کے ليے مطلوبہ فنڈز ميسر نہيں۔ پاکستانی وزارت خزانہ نے فاٹا کے ليے سینٹ کی کمیٹی کو قبائلی علاقوں میں بائیس سو ملازمتيں پر کرنے کے ليے فنڈز فراہم کرنے کا عندیہ ديا ہے تاہم اس کے ساتھ يہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ ان فنڈز سے صرف تعلیم کے شعبے میں بھرتیاں کی جائيں۔

فاٹا سیکريٹيریٹ کے اعلیٰ عہدیدار حزب اللہ خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’فاٹا کے ٹرانزیشن پلان پر تیزی سے کام جاری ہے جس سے نہ ‌صرف عوام کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی بلکہ اس سے روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا میں میگا پراجیکٹس اور دس سالہ منصوبہ جات کے ذریعے مقامی نوجوانوں کو بہتر مواقع مل سکتے ہیں۔ اس وقت مواصلات، لائیو اسٹاک، تعلیم اور صحت کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے، جن سے یقیناً عوام کو سہولیات اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔

دو دہائیوں سے دہشت گردی اور اس کے خلاف آپریشن کی وجہ سے فاٹا کے عوام متعدد مسائل سے دو چار ہیں۔ ایسے میں زیادہ تر نوجوان روزگار کے ليے مڈل ایسٹ اور یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ غیر یقینی صورتحال اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان بھی روزگار کے ليے پشاور اور اسلام اباد سمیت دیگر شہری علاقوں میں ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس رجحان کو دیکھتے ہوئے فاٹا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ان نوجوانوں کو مختلف ہُنر سکھانا شروع کیا ہے اور ایف ‌ڈی اے کے مطابق اب تک چھبیس ہزار مرد و خواتین کو مختلف ہنر سکھائے جا چکے ہيں۔ اس دوران انہیں دس ہزار روپے ماہانہ بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ دل لگا کر ہُنر سیکھيں اور اپنا روزگار شروع کر سکیں۔ ان نوجوانوں کو مارکیٹ ميں مانگ کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت دی جاتی ہے تاکہ بعد ازاں انہیں آسانی سے روزگار مل سکے۔ جب اس سلسلے میں فاٹا یوتھ جرگے کے چیئرمین عدنان شنواری سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا، ’’فاٹا کے نوجوانو‌ں کو روزگار کی فراہمی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے یہ نوجوانوں انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں قبائلی نوجوانوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں روزگار کی فراہمی کے ليے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔‘‘

قبائلی علاقوں کے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ لگی سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کی تجارت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ باہمی تجارت میں اربوں روپے کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ فاٹا سے تعلق رکھنے والے فاٹا یوتھ ارگنائزیشن کے صدر شوکت عزیز کا کہنا تھا، ’’قبائلی علاقوں میں بحالی کے کاموں میں مصروف غیر سرکاری تنظیموں میں فاٹا کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دیے جائیں۔ یہ نوجوان نہ صرف علاقے کے رسم و رواج سے واقف ہیں بلکہ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ کہاں کس منصوبے کی ضرورت ہے۔ یوں یہ نوجوانوں  تعمیر و بحالی کے کاموں میں  اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔‘‘

نوجوانوں کے ليے ايک موقع، فاٹا يونيورسٹی