1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فاسٹ فیشن‘: فیشن ملبوسات کی عالمی صنعت کا تاریک پہلو

12 اکتوبر 2018

دنیا بھر میں فیشن ملبوسات کی صنعت کا ایک ایسا تاریک استحصالی پہلو بھی ہے، جس کا بہت کم صارفین کو علم ہے۔ جرمنی میں بارہ اکتوبر کو شروع ہو کر چار ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی ایک نمائش کا موضوع یہی تاریک پہلو ہے۔

https://p.dw.com/p/36SgP
تصویر: Tim Mitchel/lHygienemuseum Dresden

نیوز ایجنسی کے این اے کی جمعہ 12 اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جرمن شہر کولون میں آج سے ایک ایسی نمائش شروع ہو گئی ہے، جو اگلے برس 24 فروری تک جاری رہے گی۔ اس نمائش کا عنوان ہے، ’’فاسٹ فیشن: فیشن کی صنعت کا تاریک پہلو۔‘‘

اس نمائش میں عالمی فیشن انڈسٹری کی کارکردگی پر اس پہلو سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ٹیکسٹائلز خصوصاﹰ ملبوسات کی تیاری کے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے شعبے میں ظاہری منظر نامے کے پیچھے اصل حالات کار کیا ہیں، کارکنوں کو کس طرح کی صورت حال کا سامنا رہتا ہے اور یہ صنعت ماحولیاتی حوالے سے بھی کتنے تباہ کن نتائج کا سبب بن رہی ہے۔

اس نمائش کا اہتمام کولون شہر کے راؤٹن شٹراؤخ یوئسٹ میوزیم میں کیا گیا ہے۔ اس نمائش کے پہلی بار انعقاد کا خیال شمالی جرمن ہیمبرگ میں قائم میوزیم آف آرٹ اینڈ انڈسٹری کو 2015ء میں آیا تھا۔ اس نمائش کے انعقاد کی سوچ میں تب ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والے دو بڑے ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش کی فیکٹریوں میں ہلاکت خیز آتش زدگی کے واقعات نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

Bangladesch Textilfabrik in Dhaka | Arbeiterinnen
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Hasan
Ausstellung "Fast Fashion" Textilarbeiterfamilie Ausschnitt
تصویر: Taslima Akhter/Hygienemuseum Dresden

تب پاکستان اور بنگلہ دیش کی ان ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے اور عالمی سطح پر اس بارے میں ایک طویل بحث بھی شروع ہو گئی تھی کہ ترقی پذیر ممالک کی ایسی فیکٹریوں میں عام طور پر استحصال کا شکار لاکھوں کارکن کیسے کیسے پرخطر حالات میں کام کرتے ہیں۔

اس نمائش کے منتظمین کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق 24 فروری 2019ء تک جاری رہنے والی اس نمائش کو ’فاسٹ فیشن‘ کا نام دیا گیا ہے۔

فاسٹ فیشن سے ایک اصطلاح کے طور پر مراد یہ لی جاتی ہے کہ کس طرح مختلف مغربی ممالک کے بڑے بڑے کاروباری ادارے بیرون ملک فیکٹریوں میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری سے لیکن کم سے کم قیمتوں پر ایسے فیشن ملبوسات تیار کرواتے ہیں، جو بعد ازاں مغربی صارفین کو مختلف قیمتی برانڈز کے ناموں پر بہت مہنگے داموں فروخت کیے جاتے ہیں۔

کے این اے کے مطابق ’فاسٹ فیشن‘ ملبوسات کی عالمی صنعت میں اقتصادی اور انسانی استحصال کی وہ شکل ہے، جس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک نئی تحریک بھی شروع ہو گئی تھی۔

اس نئی سوچ کو ’سلو فیشن موومنٹ‘ یا ’کم رفتار فیشن تحریک‘ کا نام دیا گیا تھا۔

ایسا اسی تحریک کے نتیجے میں ممکن ہوا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں تیار کردہ فیشن ملبوسات خریدنے والے صارفین، فروخت کنندہ ادارے اور پیداواری کمپنیاں مل کر خود پر زیادہ ذمے داری لیں اور اس صنعت میں کام کرنے والے لاکھوں انسانوں کے لیے احترام اور بہت متنوع خام مال اور تحفظ ماحول کے لیے بھی زیادہ دور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔

م م / ش ح / کے این اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید