1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فائر بندی کے باوجود حکومتی آپریشن جاری، کاچین باغیوں کا دعویٰ

19 جنوری 2013

ميانمار ميں کاچین نسل کے باغيوں کا دعویٰ ہے کہ فائر بندی کے حکومتی وعدوں کے باوجود سرکاری دستوں کی جانب سے ملک کے شمال میں آج ہفتے کے روز بھی باغيوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنايا گيا۔

https://p.dw.com/p/17NPb
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ينگون سے موصولہ رپورٹوں ميں کاچین باغيوں کے ايک سرکردہ نمائندے کے حوالے سے بتايا گيا ہے کہ اگرچہ حکومتی دستوں نے لاجايانگ ميں ايک فوجی اڈے کے نواحی علاقوں میں باغیوں کے خلاف حملے روک ديے ہيں تاہم باغيوں کے زير انتظام کم از کم تين علاقوں ميں ایسی مسلح کارروائیاں ابھی تک جاری ہیں۔ کاچین کی فوج آزادی KIA کے اس سرکردہ نمائندے نے یہ معلومات اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر فراہم کیں۔

باغیوں کے اس موقف سے قبل جمعے کے روز ميانمار کی فوج کی جانب سے اعلان کيا گيا تھا کہ وہ ہفتے کی صبح لاجايانگ کے ارد گرد کے علاقوں میں اپنے حملے روک دے گی کيونکہ وہاں اس نے ايک فوجی چوکی پر قبضہ کر کے اپنا عسکری مقصد حاصل کر ليا ہے۔ فائر بندی کے اس فیصلے پر عملدرآمد ہفتے کی صبح مقامی وقت کے مطابق چھ بجے ہونا تھا تاہم باغيوں کا دعویٰ ہے کہ ہفتے کے روز قبل از دوپہر تک بھی چند مقامات پر حکومتی فورسز اپنی کارروائياں جاری رکھی ہوئے تھیں۔

ميانمار کے شمالی علاقوں ميں کاچین باغيوں کے ساتھ جاری مسلح جھڑپوں کو روکنے کی غرض سے ملکی فوج کی جانب سے فائر بندی کے اس فیصلے کا اعلان اس وقت کیا گیا جب ملکی پارليمان نے بھی کاچین کے تنازعے میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا تھا۔

ميانمار ميں سرکاری فوج اور باغیوں کی تنظيم کاچین فوج آزادی کے درميان جاری لڑائی ميں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کافی شدت آ گئی تھی۔ ملکی فوج کی جانب سے گزشتہ سال کے آخری دنوں ميں کاچین باغیوں کے خلاف شروع کيے گئے فضائی حملوں کے بعد ميانمار کو اقوام متحدہ اور امریکا کی جانب سے بھی شدید تنقيد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ملکی فوج کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس مسلح تنازعے میں آنے والی تازہ شدت کے بعد سے وہاں 35 فوجی ہلاک جبکہ قريب 190 زخمی ہو چکے ہيں جبکہ باغیوں کو پہنچنے والے جانی نقصان کے بارے میں فوج یا باغیوں نے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔

ميانمار کے صدر تھین سین
ميانمار کے صدر تھین سینتصویر: dapd

دريں اثناء ميانمار کے صدر تھین سین نے آج ہفتے کے روز ايک مرتبہ پھر اپنے اس موقف کو دہرايا کہ ریاست باغيوں کے ساتھ امن مذاکرات کی خواہاں ہے۔ اپنے ايک بيان ميں انہوں نے کہا، ’ميں نے فوج کو حکم ديا ہے کہ وہ اس مسئلے کا پر امن حل تلاش کرے۔ ميری رائے میں کاچین تنظیم آزادی جلد ہی امن عمل کا حصہ بنے گی‘۔ میانمار میں کاچین تنظیم آزادی KIO کاچین فوج آزادی KIA کا سیاسی بازو ہے۔

میانمار میں سن 2011 ميں اقتدار میں آنے والے موجودہ حکومت اب تک متعدد باغی گروپوں اور عسکریت پسند تنظيموں کے ساتھ کامياب امن مذاکرات کر چکی ہے ليکن کاچین باغيوں کے ساتھ نتیجہ خیز مکالمت ميں اسے اب تک کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہيں ہو سکی۔

as / mm (AP, AFP)