1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیرت زندہ، انسانیت زخمی، خواتین کا قتل جاری

فرید اللہ خان، پشاور9 مارچ 2015

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ سال خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے علاوہ اُن کے اغوا اور جبری شادی کے بھی گیارہ سو سے زیادہ کیسز درج ہوئے۔

https://p.dw.com/p/1Enis
تصویر: bilderbox

مقامی روایات کی وجہ سے نصف سے زیادہ کیس درج ہی نہیں ہوتے۔ صوبائی حکومت نے متعدد قوانین بنائے ہیں لیکن اس کے باوجود غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور جبری شادی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ درجنوں کی تعداد میں غیر سرکاری ادارے خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

گذشتہ روز ملا کنڈ ڈویژن کے ضلع بونیر کے ایک دور افتادہ علاقہ چغرزئی میں ایک شخص نے دو خواتین کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ مقامی پولیس نے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ اس کیس کے تفتیشی افسر اور گل بانڈے پولیس سٹیشن کےاہلکار عمران نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ دونوں خواتین کو ایک ہی رشتہ دار نے قتل کیا۔ مرنے والی ایک خاتون معاشرہ کے والد نے رپورٹ درج کروائی ہے اورپولیس اس سلسلے میں تحقیقات کر رہی ہے۔

لاہور میں غیرت کے نام پر ایک خاتون کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں مئی 2014ء میں انسانی حقوق کے علمبردار حلقوں کا احتجاجی مظاہرہ
لاہور میں غیرت کے نام پر ایک خاتون کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں مئی 2014ء میں انسانی حقوق کے علمبردار حلقوں کا احتجاجی مظاہرہتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

یہ واقعہ اُس روز رونما ہوا، جب دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مختلف سیمینار اور مباحثے منعقد ہو رہے تھے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں اس طرح کے واقعات معمول کی بات ہیں۔ جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے خواتین کے ساتھ اس طرح کے کیسز میں تعاون کرنے والی پشاور ہائی کورٹ کی قانون دان نیلم خان ایڈووکیٹ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا:’’ہراسمنٹ اور پروٹیکشن کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن خواتین کو نہ تو تحفظ حاصل ہو سکا اور نہ ہی ہراسمنٹ کاخاتمہ ہو سکا۔ غیرت کے نام پر قتل میں دونوں پارٹیاں اکثر ایک جیسی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کیسز میں وہ آپس میں بات کر کے کیسز کو ختم کر دیتی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ پختون روایات کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح کے کیسز کی پیروی کرنا اپنی بدنامی کا باعث سمجھتے ہیں ۔‘‘

پاکستان میں ایک غیر سرکاری ادارے نیشنل ہیلپ لائن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال ملک بھر میں خواتین کے خلاف ہونے والے واقعات کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں جبکہ سب سے کم بلوچستان میں ہوئے۔ تاہم خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس تعداد میں کمی کی وجہ اس طرح کے کیسز کا اندراج نہ ہونا ہے۔ لوگ اس طرح کے واقعات کو اپنی بدنامی کا باعث تصور کرتے ہیں۔ بعض کیسز میں تو قتل کرنے والے کو پورے خاندان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔

پاکستانی صوبہٴ سندھ کے شہر سکھر میں ایک دارالامان میں پناہ لیے ہوئے خواتین
پاکستانی صوبہٴ سندھ کے شہر سکھر میں ایک دارالامان میں پناہ لیے ہوئے خواتینتصویر: DW

ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی درجنوں غیر سرکاری تنظیمیں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں لیکن ان کی یہ سرگرمیاں سیمینارز اور ورکشاپس تک ہی محدود ہوتی ہیں جبکہ خواتین میں آگاہی پیدا کرنے کی کوششیں اور ان کے حقوق کے لیے عملی کام نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ان غیر سرکاری تنظیموں کو ان سرگرمیوں کے لیے عالمی اداروں کی جانب سے خطیر رقوم ملتی ہیں۔

اس سلسلے میں معروف قانون دان نیلم خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے:’’اس طرز عمل کو روکنا این جی اوز کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی وہ اس میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کو اسلام نے جو حقوق دیے، اس سے انہیں آگاہ کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے:’’ہمارے لوگ ان احکامات اور ہدایات پر عمل نہیں کرتے، جس کی وجہ سے معاشرے میں ناہمواری پیدا ہو رہی ہے۔ خواتین کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں اور جب وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں تو انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے اہم بات خواتین کی تعلیم پر توجہ دینا ہے، اگر خواتین پڑھی لکھی ہوں تو وہ اپنے حق کے لیے آواز بھی بلند کر سکتی ہیں۔‘‘

پاکستان کی آبادی میں خواتین کا تناسب اکیاون فیصد ہے تاہم اس تناسب سے ہر ادارے میں اُن کی نمائندگی نہیں ہے جبکہ قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے خواتین کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو سزا بھی کم ہی ہوتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید