1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غداری کا سفر، پھانسی کے پھندے سے بیانیے تک

3 نومبر 2020

لاہور شہر کے مختلف علاقوں کی دیواروں، کھمبوں پر پوسٹرز اور بینرز آویزاں ہیں۔ آدھی تصویر ایاز صادق کی، آدھی پاکستانی قید سے رہائی پانے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی۔ شکل ایاز صادق کی، بڑی، بڑی مونچھیں ابھی نندن کی۔

https://p.dw.com/p/3knXZ
Pakistan | DW Urdu Blogger | Owais Tohid
تصویر: privat

''غدار وطن‘‘،''غدار وطن‘‘۔ ’’میر جعفر‘‘ اور ’’میر صادق‘‘ کے القابات سے نوازا جا رہا ہے۔ بینرز اور پوسٹرز سے کچھ فاصلے پر وہ چوراہا ہے، جسے تاریخ اور جنگ آزادی کے ہیروز کی قدر کرنے والے باسی اس چوک کا نام بھگت سنگھ رکھنا چاہتے تھے لیکن قدامت پسندوں نے ایسے نہ ہونا دیا۔

تھوڑی ہی دور کیمپ جیل ہے، جہاں بھگت سنگھ کو برطانوی راج نے غدار قرار دیا، پھانسی پر لٹکایا۔ لیکن لوک کہانیوں میں آزادی کے ہیرو اور تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔

بھگت سنگھ کی شخصیت کے ذکر سے ایاز صادق یا کسی موجودہ سیاسی کردار کے ساتھ مماثلت یا موازنہ مقصود نہیں بلکہ صدیوں کے غداری کے سفر کو ماضی کے حالات و واقعات سے پرونا ہے۔ 

خود ایاز صادق کی تعلیم و تربیت برطانوی راج کی باقیات یعنی ایچی سن ادارے لاہور میں فوجی جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی اولاد کے ساتھ ہوئی۔ گھڑ سواری، شمشیر زنی جیسے ہنر سیکھے۔

عمران خان کے ساتھ وقت ایچی سن میں گزارا، یہیں ان کے ساتھ دوستی ہوئی۔ اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز تحریک انصاف کی سیاست سے کیا۔ اختلافات کے باعث عمران خان کی سیاست کو ترک کیا۔ میاں نواز شریف کی سیاست کو گلے لگایا اور لاہور میں ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات جیتتے رہے۔ گزشتہ دور میں قومی اسمبلی کے اسپیکر بنے۔

نواز شریف کو ہی لے لیجیے۔ ان کی سیاست کا پودا جنرل جیلانی نے فوجی آمر جنرل ضیاء کے دور میں لگایا اور یہ سیاسی بیل ضیاء کی آمریت کے سایہ تلے خوب منڈھی، سیاست پھلی، پھولی۔

اب نواز شریف کافی عرصے سے سویلین بالادستی کے نعرے لگاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور جرنیلوں کی حدودو قیود کا تعین چاہتے ہیں، للکارتے ہیں۔

ان دنوں ان کی شناخت ملک کے تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم کے بجائے ’’مودی کے یار‘‘ اور''غدار‘‘ کے طور پر ہو رہی ہے۔

بغاوت کا مقدمہ درج ہے۔ تاریخ جہاں حالت و واقعات رقم کرتی ہے، وہاں تضادات بھی لکھے جاتے ہیں۔

کیا ایاز صادق کو کبھی گمان ہو سکتا تھا کہ وہی اشرافیہ، جس کا وہ حصہ رہے ہیں، ان ہی کو ہدف بنا سکتی ہے۔

ایاز صادق کا بیان ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ تو قرار دیا جا سکتا ہے۔ بطور پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر نیشنل سکیورٹی معاملات پر ان کیمرہ بریفنگ کی اخلاقیات سے بخوبی واقف ہوں گے۔ مضمرات کا بھی اندازہ ہو گا۔

ابھی نندن کی رہائی بابت لفظوں کا چناؤ یعنی ’’وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ماتھے پر پسینہ آنا، ٹانگوں کا کا نپنا‘‘ غلط ہو سکتا ہے۔ لیکن غداری کے زمرے میں لانا، چوراہوں پر، ٹی وی اسکرینز کے جمعہ بازار میں غداری اور محب وطن کے سرٹیفیکیٹس کے اسٹال سجانا کس کو سج سکتا ہے۔ ’’نامعلوم افراد‘‘ کی اصطلاح کی طرح غالباً سب کو معلوم ہے۔

غداری کا سفر ہماری دھرتی  کی تاریخ میں پیوست ہے۔

میرے بچپن کے قصہ کہانیوں میں آباو اجداد کی کہانی۔ روایت یوں ہے کہ میرے والد کے پردادا محمد فاروق، جنہیں خاندان والے ’’بڑے ابو‘‘ اور اتر پردیش کے ان کے آبائی قصبے کے لوگ ’’بڑے صاحب‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

انگریزوں سے متاثر، رہن سہن پر وہی ولایتی چھاپ، اچھے عہدے پر فائز لیکن اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے دنوں میں تن من سے مجاہدین کے قافلہ میں شامل ہو گئے اور لڑتے ہوئے مارے گئے۔

انگریزوں نے ’’دیسیوں‘‘ کی عبرت کے لیے دوسرے مجاہدین کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔تاہم 1947 تک خاندان کی پاکستان ہجرت تک آس پاس کے قصبوں میں ان کی قربانی کو یاد رکھا گیا۔

خود میری بیوی نازش بروہی، جو پاکستان کے معروف قانون دان اے کے بروہی کی بھتیجی ہیں، ان کے تایا اور سندھ کے مشہور دانشور علی احمد بروہی کو برطانوی راج کے خلاف بحریہ کی بغاوت کی سازش کے الزام میں کالے پانی کی سزا ہوئی۔

غرض یہ کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل برطانوی راج کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں شامل قافلے کے مجاہدین ہوں یا تقسیم اور پاکستان کی تشکیل کے بعد دہائیوں پر محیط ہچکولے کھاتے ہوئے جمہوری سفر کے سیاسی کردار، غداری اور وفاداری تاریخ سے جڑی ہے۔

غالباً برطانوی تاج میں فائز بیوروکریسی نے، جب نئے ملک کے نظام کو سنبھالا تو انہیں غداری اور وفاداری  کے سیاسی ہتھیار ورثے میں حکمرانی کے ٹول باکس میں ملے، جن کا آنے والے وقتوں میں سیاسی حکومتوں اور بالخصوص آمرانہ ادوار میں خطرناک استعمال کیا گیا۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان کا دور، بنگال میں گہرا اثرو رسوخ رکھنے والے مسلم لیگ کے اہم رہنما حسین شہید سہروردی کو غدار کہا گیا جو کچھ عرصے بعد ملک کے وزیر اعظم بھی بنے۔

پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ہی ملک کی خارجہ پالیسی کا جھکاؤ امریکا کی طرف رہا اور ملک کے کمیونسٹ اور بائیں بازو کی جماعتیں عتاب کا شکار رہیں۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائدکر دی گئی۔ کمیونسٹوں کو غدار گردانا گیا۔ ان دنوں رہنماؤں کے گھروں کی دیواروں پر اکثر انڈیا اور روس کے ایجنٹ اور غدار کے نعرے لکھے جاتے تھے۔

فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے تو اپنے اقتدار کے حلالے کے لیے قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا۔ ستم ظریفی دیکھیے بھٹو، جو ایوب خان کے چہیتوں میں شمار ہوتے تھے، اس مہم میں شریک تھے۔

کہا جاتا ہے کہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن پر مرتے دم تک فاطمہ جناح کے بیانات نشر کرنے پر پابندی رہی۔

مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب کو بھی غدار قرار دیا گیا گویا غداری کے الزامات نے ان کے چاہنے والے بنگالی قوم کی اکثریت کو بھی گھیرے میں لے لیا۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا یا ہم نے کھو دیا۔ سانحے کی چوٹ کا احساس اب بھی ریاست کے دل پر موجود ہے۔

سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید ہوں یا بلوچ رہنما  غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری یا عطا اللہ مینگل ملک دشمن اور غدار ی کے الزامات پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

ذوالفقار علی بھٹو جہاں بے انتہا پاپولر لیڈر تھے، وہاں انہیں سیاسی مخالفت بالکل برداشت نہ تھی، جس کی وجہ سے کئی بڑی غلطیاں کر بیٹھے۔ بلوچستان کی حکومت گرائی، بلوچستان میں فوجی چڑھائی کرائی۔

انھیں کے دور میں پشتون قوم پرست جماعت اے این پی کی قیادت پر غداری کے الزامات لگے۔ حیدرآباد سازش بغاوت کا مقدمہ چلا، پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ افغانستان اور بھارت سے مدد کے الزام لگائے گئے۔

دہائیاں بیت گئی ہیں لیکن انہی الزامات کی چادر کو پشتون تحفظ موومنٹ کی لیڈرشپ کے ارد گرد لپیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی مختلف ادوار میں اس بیانیے کو ایک دوسرے کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا۔

نواز شریف نے بینظیر بھٹو پر سکیورٹی رسک کا الزام لگایا کہ انہوں نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو سکھ علیحدگی پرست تحریک خالصتان کے رہنماؤں کی فہرست دی تھی۔

بلاول نے کچھ برس قبل جلسوں میں نواز شریف کو ’’مودی کا یار‘‘ قرار دیا۔

سیاسی رہنماؤں کی یہ روش سراسر غلط ہے۔ ادھر ریاستی اداروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ قوم پرست  یا سیاسی نعروں اور تنقید سے ریاست کمزور نہیں ہوتی۔

مائنڈ سیٹ ٹائم زون میں منجمد ہو سکتا ہے لیکن گھڑی کی سویاں وقت کو بدل رہی ہیں۔ ماضی، حال اور پھر مستقبل

ان دنوں قومی سیاسی دھارے میں غداری کا بیانیہ سرایت کرتا جا رہا ہے۔ حکمراں جماعت تحریک انصاف کے رہنما اس مہم جوئی کے خطرناک آگ کے گولے کو اپنی الزام تراشیوں سے ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔

سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ غداری اور محب وطن کے سرٹیفیکیٹس کی تقسیم سے عارضی فوائد تو حاصل ہو سکتے ہوں گے لیکن اس کے مضمرات گہرے اور خطرناک ہیں۔ ریاستی کینوس داغدار ہی ہوتا ہے۔ سیاسی اور سکیورٹی معاملات ایک دوسرے میں الجھتے چلے جاتے ہیں۔

شیخ رشید جنہیں سیاسی جوتشی اور مقتدر حلقوں کا سیاسی ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ ان دنوں جب نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے نظر آتے ہیں، ان کے بیانات کا موسم ہے۔

بقول ان کے اگر کوئی سیاسی جماعت ریاست سے لڑائی کرنے کا سوچے گی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

شیخ صاحب کیوں نا آپ خود پنڈی میں اپنی آبائی لال حویلی کی بالکنی میں براجمان ہوں۔ پنڈی ہی سے کچھ امپائر بھی بلا لیں۔ سگار سلگائیں۔ سامنے احاطے میں قبائلی روایتوں کے مطابق سچ اور جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے دہکتے انگارے بچھوا دیں۔ غداری اور وفا داری کا فیصلہ ہو۔ سارے سیاستدان اور جن، جن پر شک ہو ان کو انگاروں پر چلوایا جائے لیکن اگر دہکتے انگاروں سے شعلے بھڑک اٹھے تو اس آگ کی لپیٹ میں بہت کچھ جل جانے کا خطرہ ہے۔