1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غالب کا یوم وفات: شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا

عاطف توقیر15 فروری 2014

دنیائے اردو کے عظیم المرتبت شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا 144واں یوم وفات آج ہفتے کے روز منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اردو زبان و ادب کے چاہنے والے مختلف تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1B9n4
تصویر: Public Domain

شاعری میں اساتذہ کی فہرست میں گنے جانے والے مرزا اسد اللہ خان غالب اردو کے رخشندہ ترین ستارے تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کے اشعار اپنی رعونت، موسیقیت اور فلسفے کے ساتھ ساتھ ندرت خیال اور عام ڈگر سے ہٹ کر سوچنے اور اعتراف کرنے کے سبب انہیں آبروئے اردو بناتے ہیں۔

غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ہندوستان کے سیاسی حالات اور مغل دور حکومت کے انحطاط و زوال کے ادوار کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے غالب نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور اس کے جواب میں ہندوستان میں 1857ء کی جنگ آزادی جیسے اہم واقعات کا مشاہدہ بھی کیا۔ ان تمام سیاسی اور معاشرتی واقعات کا اندازہ ان کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے، تاہم غالب کی رومانویت اور دیگر اہم شعراء سے مختلف اسلوب دراصل ان کا طُرہء امتیاز رہا۔ ابتدا میں فارسی شاعری پر طبع آزمائی کرنے والے غالب نے اردو کی جانب تاخیر سے ہاتھ بڑھایا، مگر کم غزلوں کے باوجود ان کی شاعری نے اردو زبان و ادب پر وہ نقوش چھوڑے کہ عبدالرحمان بجنوری جیسے نقاد کو بھی کہنا پڑا، ’ہندوستان میں دو ہی الہامی کتابیں اتری ہیں، ایک وید مقدس اور دوسری دیوان غالب۔‘

غالب کے کلام کی ایک خاص بات ان کی شاعری میں رنج و الم کی کیفیت پر مسکرانا شامل ہے۔ اردو شاعری جسے طرح داری و وضح داری جیسے بے شمار تردد کا سامنا رہا، غالب کے ہاں آ کر اسے مشکل موضوعات کو بآسانی کہنے کا ہنر بھی آ گیا۔ غالب کا یہی اسلوب اردو کے ہر دور کو ’غالب کا دور‘ بناتا ہے۔

عام اور کلاسیکی موضوعات کے ساتھ ساتھ غالب مذہب و مسلک سمیت ہر موضوع کو انتہائی لطیف پیرائے میں اپنے طنز کی وار سے اظہاریہ کی نئی شکل دیتے ہیں۔

Indien Tourismus Rückgang
غالب کی شاعری ایک طرف تو ندرت خیال کی حامل ہے اور دوسری طرف زندگی کے مختلف رویوں کی غمازی کرتی بھی نظر آتی ہےتصویر: Getty Images/AFP

وہ ایک طرف کہتے ملتے ہیں:

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے، جواب میں

اور دوسری جانب غالب کہہ جاتے ہیں:

مسجد کے زیرسایہ اِک گھر بنا لیا ہے

یہ بندہ کمینہ، ہمسایہ خدا ہے

اگر وہ ایک طرف کہتے ہیں:

قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

تو وہیں ان کے ہاں آپ کو یہ رنگ بھی ملے گا:

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو

روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

غالب کے یوم وفات پر پاکستان اور بھارت میں متعدد مقامات پر شعری نشستوں اور یادگاری تقریبات کا اہتمام کیا گیا، تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے یہ نئی روایت بھی دیکھی جا رہی ہے، جس میں اردو شاعری اور ادب سے محبت کرنے والے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ایسے اہم اور عظیم شعراء سے اپنی محبت کا اظہار انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے اشعار تحریر کرنے سے کرتے ہیں۔ ڈیڑھ سو برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود غالب کے مداح آج بھی ان کے اشعار کو ویسے ہی ازبر کیے دکھائی دیتے ہیں، جیسے اردو شاعری میں ترقی پسند تحریک کے آغاز کے بعد عوام کی ایک بڑی تعداد نے غالب کو نئے سرے سے دریافت کیا تھا۔