1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عہد وسطیٰ کی یورپی جامعات

5 دسمبر 2022

ساتویں اور آٹھویں صدیوں تک یورپ فیوڈل ازم کی روایات میں جکڑا ہوا تھا۔ لیکن جب یہ زنجیریں ٹوٹنی شروع ہوئیں تو یورپ ایک نئی شکل میں ابھرا۔ نئے خیالات اور افکار اور تعلیم نے اس کے بنیادی اداروں کو تبدیل کیا۔

https://p.dw.com/p/4KUgC
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

عہد وسطیٰ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعات کا قیام عمل میں آیا۔ ساتویں اور آٹھویں صدیوں تک یورپ فیوڈل ازم کی روایات میں جکڑا ہوا تھا۔ لیکن جب یہ زنجیریں ٹوٹنی شروع ہوئیں تو گیارھویں اور بارھویں صدیوں میں یورپ ایک نئی شکل میں ابھرا۔ سیاسی طور پر یورپ میں استحکام پیدا ہوا اور زرعی پیداوار کی وجہ سے معاشی خوشحالی آئی۔ اس کے نتیجے میں آبادی میں اضافہ ہوا اور نئے شہر وجود میں آئے۔ تجارتی سرگرمیاں بڑھیں اور معاش کی تلاش میں لوگ ایک سے دوسری جگہ جانے لگے۔ جس کا اَثر بول چال کی زبان اور کلچر پر ہوا۔

شہروں کے وجود کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ یورپ میں جامعات کا قیام عمل میں آیا۔ کسی بھی تہذیب میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعات کا ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ یہ نہ صرف علم کو محفوظ رکھتی ہیں بلکہ اس میں اضافہ کر کے وقت کی ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔

یورپ کے نئے شہروں میں کاریگروں کی جماعتیں ہوا کرتی تھیں جو گلٹ کہلاتی تھیں، اس میں ماسٹر اپنے شاگردوں کو کاریگری سکھاتے تھے۔ اسی ماڈل پر یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اسے یونیورسٹا کہا جاتا تھا، جس کا مطلب تھا کہ اس میں اس وقت کے موجودہ علوم کی تعلیم دی جائے۔ نئی یونیورسٹیاں شہروں میں قائم ہوئیں جیسے پیرس اور اٹلی کے شہر (Padua) اور (PISA) کی یونیورسٹیاں، جہاں طالب علم ایک سے دوسری یونیورسٹی میں قابل اساتذہ کی تلاش میں جاتے تھے اور علم کے حصول کے لیے محنت کرتے تھے۔ اساتذہ کی کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی اور طالب علموں کی فیس کی وجہ سے وہ اپنا معاوضہ وصول کرتے تھے۔ اس لیے ہر استاد کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ اس کے پاس زیادہ سے زیادہ طالب علم آئیں۔

جامعات جن میں پیرس، آکسفورڈ اور بولونیا شامل تھیں۔ ان میں مختلف علوم کی فیکلٹی تھیں جن میں آرٹ، طب، الٰہیات اور قانون اہم تھیں، جو طالب علم تعلیم مکمل کر لیتے تھے۔ انہیں ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا تھا جو انہیں تدریس کا حق دیتا تھا۔ طالب علموں کا سماجی درجہ معاشرے میں چرچ کے راہبوں کے برابر تھا۔ اس لیے عام لوگ ان کا ادب کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑے کی صورت میں چرچ طالب علموں کے مخالف فرد یا جماعت کو عیسائیت سے خارج کرنے کا حق رکھتی تھی۔ سول اتھارٹی ان پر مقدمہ نہیں چلا سکتی تھی۔ چرچ کے مذہبی ادارے ان کے مقدموں کا فیصلہ کرتے تھے۔

جن شہروں میں یہ جامعات تھیں ان کا سرکاری عملہ ان کو سہولتیں مہیا کرتا تھا۔ چرچ کی جانب سے انہیں مالی مدد بھی ملا کرتی تھی۔ فیوڈل لارڈز اور تاجر بھی جامعات کی فنڈنگ کرتے تھے۔ شہر میں ہونے کی وجہ سے ایک تو وہاں علمی ماحول پیدا ہوتا تھا۔ دوسرے طالب علم صارفین کی حیثیت سے تجارت کو فروغ دیتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ شہری لوگوں اور طالب علموں میں جھگڑوں یا مکانوں کے کرایوں میں اضافے کے معاملات پر جامعات شہروں کے بجائے دیہاتوں میں چلی گئیں۔ جب شہریوں کو معاشی نقصان کا علم ہوا تو انہیں منت سماجت کر کے واپس لائے۔

مختلف جامعات اپنی اہم Faculty کی وجہ سے مشہور تھیں۔ جیسے قانون، طب اور الٰہیات اپنی تعلیم کی وسعت کے لحاظ سے سوسائٹی ان کی ضرورت مند ہو گئی تھی۔ کیونکہ سیاست، مذہب، ادب، آرٹ اور موسیقی ان سب کی تخلیق جامعات میں ہوتی تھی جو پوری سوسائٹی کے ذہن کو تبدیل کر دیتی تھی۔

ییرس یونیورسٹی میں Faculty of Arts کی اہمیت تھی۔ اگر کسی طالب علم کو طب قانون میں ڈگری لینا ہوتی تھی تو پہلے اسے آرٹس میں داخلہ لینا ہوتا تھا۔ Arts Faculty کے استاد کو وسیع اختیارات تھے۔ وہ یونیورسٹی کے انتظامی امور کو دیکھتا تھا اور نصاب بنانے میں بھی اس کی اہمیت تھی۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے لیے Re-Actor مقرر کیا جاتا تھا۔ طالب علموں کے نظم و ضبط کے لیے Proctors ہوا کرتے تھے۔

یونیورسٹی کی اہمیت کے پیش نظر تیرھویں صدی تک یورپ کے ہر شہر میں ریاست یا نجی ادارے کی وجہ سے یونیورسٹیاں قائم ہو گئی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ طالب علموں کی تعداد بھی بڑھ گئی تھی۔ ڈگری کے حصول تک طالب علم کو کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ ہر شعبے میں تعلیم کی تکمیل کے لیے خاص مدت تھی، جس کے لیے اسے سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔

یونیورسٹی کے داخلے کے لیے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ داخلہ ملنے کے بعد Re-Actor طالب علم سے یہ عہد لیتا تھا کہ وہ یونیورسٹی کا وفادار ہو گا۔ یونیورسٹی کی فیس ادا کرے گا اور کسی انتقامی جذبے کا شکار نہیں ہو گا۔ طالب علم کو اس بات کی بھی آزادی ہو گی کہ وہ کسی نئی یونیورسٹی میں چلا جائے اور نئے استاد کا انتخاب کرے۔ یہ اس لیے ممکن تھا کیونکہ تمام جامعات کا نصاب ایک ہی قسم کا تھا۔ اس لیے تبدیلی میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔

یونیورسٹی میں دو قسم کے لیکچرز دیئے جاتے تھے۔ ایک Ordinary لیکچر کہلاتا تھا جو صبح کے وقت دیا جاتا تھا۔ اس وقت اور کوئی دوسرا لیکچر نہیں دیا جاتا تھا۔ دوسرا Extra-Ordinary لیکچر کہلاتا تھا جو دوپہر میں دیا جاتا تھا۔ اس میں طالب علم اور اساتذہ شامل ہوتے تھے۔ آخر میں ان دونوں لیکچرز پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔ کلاس روم میں استاد نصاب سے متعلق لیکچرز دیا کرتے تھے۔ طالب علم لیکچرز سن کر اس کے نوٹس بھی لیتے تھے۔ استاد لیکچرز کے دوران موضوع کے حوالے سے مزید وضاحت بھی کرتا تھا۔ لیکچر میں دو طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ ایک میں ارسطو اور دیگر فلسفیوں کے اقتباسات پیش کئے جاتے تھے، دوسرے لیکچر میں استاد ارسطو، ابن سینا اور دوسرے فلسفیوں کے اقتباسات سناتا تھا پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے ان پر اپنے ریمارکس بھی دیتا تھا۔ استاد اپنے دیے ہوئے لیکچر کو شائع کراتا تھا جسے دوسرے اساتذہ اور طالب علم خرید کر پڑھتے تھے۔ لیکچرز کی اشاعت کی وجہ سے استادوں اور طالب علموں میں بحث و مباحثہ ہوتے تھے۔

کلاس میں کسی ایک موضوع پر بحث و مباحثہ کرایا جاتا تھا۔ مثلاً استاد یہ سوال دیتا تھا کہ کیا انسان آزاد ہے۔ اس کی حمایت اور مخالفت میں طلبہ اور اساتذہ بھی اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ طلبہ میں تنقیدی نقطہ نظر پیدا ہوا۔

گریجویشن کے بعد ماسٹر کی ڈگری کے لیے طالب علم کو دو سال مزید پڑھائی کرنا پڑتی تھی۔ اس کے بعد طالب علم کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جاتا تھا کہ اس نے کتنے علمی بحث و مباحثوں میں حصہ لیا۔ اس کے بعد اسے ماسٹر کی ڈگری دی جاتی تھی اور پھر اسے یونیورسٹی میں پڑھانے کی اجازت مل جاتی تھی، لیکن اس سے پہلے اسے ایک لیکچر دینا ہوتا تھا تاکہ اس کی قابلیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔

یونیورسٹی کی جانب سے اہم موضوعات پر بحث و مباحثے (Disputation) ہوا کرتے تھے جو دو دن تک جاری رہتے تھے۔ اس میں اساتذہ اور طالب علموں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی حصہ لیتے تھے۔ اس میں ہر قسم کے سوالات کی اجازت تھی۔ بعض لوگ سخت تنقیدی، مذہبی اور سیاسی سوالات کرتے تھے، مگر ان کا جواب دیا جاتا تھا اس سے یونیورسٹی کے آزاد ماحول کا اندازہ ہوتا ہے۔

عہد وسطیٰ کی یونیورسٹی کے نصاب میں منطق کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن سولہویں صدی میں جب سماجی علوم کی اہمیت ہوئی تو منطق کا کردار بھی گھٹ گیا۔ ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے تک طالب علم کی عمر 25 سال تک پہنچ جاتی تھی۔ جب کہ اوسط عمر 60-50 سال ہوا کرتی تھی۔ جو طالب علم قانون، طب اور تھیالوجی میں ڈگری لینا چاہتے تھے انہیں سب سے پہلے آرٹس کے شعبے میں گریجویشن کرنا پڑتی تھی۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے تکمیل تعلیم تک طالب علم کی عمر کا خاصہ حصہ لگ جاتا تھا۔

یورپ اور امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیوں کی ساخت میں عہد وسطیٰ کی یونیورسٹی کا آج بھی عمل دخل ہے۔ اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ علم کے حصول کے لیے استاد اور طالب علموں کو سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔ تعلیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ سوالات کریں اور موضوع کو چیلنج کریں۔

''یہ مضمون (Edward Grant) کی کتاب (The Foundations of Modern Science) سے لیا گیا ہے اور اس کے اہم نکات کو مندرجہ بالا شکل میں پیش کیا گیا ہے‘‘۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔