1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عورتیں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم

12 جولائی 2018

پاکستان کے صوبے پنجاب  کے گاؤں موہری پور کے مردوں نے پاکستان کے قیام کے بعد یہاں کی خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس مرتبہ خواتین اس پابندی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہیں۔

https://p.dw.com/p/31KSd
Pakistan Dorf Mohri Pur | Frauen und Teilnahme an Wahlen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پنجاب کے شہر ملتان سے 60 کلومیٹر دور گاؤں موہری پور میں شدید گرمی اور تیز دھوپ کے باوجود جامن کے ایک درخت کے نیچے اس گاؤں کی مقامی خواتین اکٹھی ہیں۔ یہاں موجود 31 سالہ نازیہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ شاید مرد سمجھتے ہیں کہ عورتیں بے وقوف ہوتی ہیں یا پھر ’عزت‘ تو بس عورتوں سے جڑی ہیں۔‘‘ اس گاؤں کی خواتین کو امید ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کی جانب سے بنائے گئے قوانین کے تحت انہیں ووٹ ڈالنے کا حق مل جائے گا۔

پاکستان کے الیکشن کمیشن کے قانون کے تحت اگر کسی حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد میں خواتین کے ووٹ کل رجسٹرڈ ووٹوں کے تناسب سے دس فیصد سے کم ہوئے تو اس حلقے کے نتائج کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

موہری پور کی خواتین بتاتی ہیں کہ دہائیوں قبل انہیں مردوں نے ووٹ ڈالنے سے منع کر دیا تھا کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گھر سے نکل کر پولنگ اسٹیشن پر جانا عورت کی عزت اور وقار کو مجروح کر دے گا۔ تبسم نامی ایک خاتون نے کہا،’’میں نہیں جانتی کہ تب مردوں کو ’عزت‘ کا خیال کیوں نہیں آتا جب وہ خود گھروں میں رہتے ہیں اور عورتیں کھیتوں میں سخت محنت مزدوری کر رہی ہوتی ہیں۔‘‘

Pakistan Dorf Mohri Pur | Frauen und Teilnahme an Wahlen
 موہری پور میں خواتین گھروں سے باہر کھیتوں میں کام کرتی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں 20 ملین نئے ووٹرز رجسٹر ہوئے ہیں جن میں سے 9.13 ملین خواتین ہیں۔ 207 ملین کی آبادی پر مشتمل ملک پاکستان اب بھی ایک پدارانہ معاشرہ تصور کیا جاتا ہے۔ 2013ء میں عدالت نے پاکستان کے شمالی مشرقی اضلاع میں علاقے کے دو مرد بزرگوں کو خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ دینے پر جیل بھجوایا تھا۔

خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نئے قوانین کے باعث شاید کچھ حد تک خواتین ووٹرز گھروں سے باہر نکلیں لیکن بہت سے ایسے علاقے اب بھی ہوں گے جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

 موہری پور میں خواتین گھروں سے باہر کھیتوں میں تو کام کرتی ہیں اور کچھ تھوڑی بہت تعلیم یافتہ بھی ہیں لیکن پھر بھی ان پر ووٹ ڈالنے کی پابندی ہے۔ 60 سالہ بیوہ خاتون نذیراں مائی کا کہنا ہے،’’ عورتوں کا ووٹ نہ ڈالنا ایک روایت بن گیا ہے۔ میں اس لیے ووٹ نہیں ڈالتی کیوں کہ کوئی اور خاتون بھی نہیں ڈالتی۔‘‘ نذیراں کے علاوہ دیگر خواتین اپنے گھروں کے مردوں سے ڈرتی ہیں۔

Pakistan Dorf Mohri Pur | Frauen und Teilnahme an Wahlen
موہری پور کی خواتین بتاتی ہیں کہ دہائیوں قبل انہیں مردوں نے ووٹ ڈالنے سے منع کر دیا تھا تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

22 سالہ شمائلہ مجید کا کہنا ہے،’’ اگر خواتین ووٹ ڈالنے چلی گئیں، تو انہیں اپنے شوہروں کی خفگی کا سامنا ہو سکتا ہے اور کچھ مرد اپنی بیویوں پر ہاتھ بھی اٹھا سکتے ہیں، اس لیے یہ خواتین سمجھتی ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔‘‘

موہری پور میں ایک خاتون کونسلر ارشاد بی بی جو  اس قانون کے تحت کونسلر منتخب ہوئی جس کے مطابق گاؤں کی کونسل میں کم از کم ایک خاتون رکن ہونا ضروری ہے کا کہنا ہے کہ اس نے بھی کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔ ارشاد بی بی کے شوہر ظفر نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ ہمارے بزرگوں نے یہ روایت قائم کی ہے اب ہم بھی اسی روایت کو چلا رہے ہیں۔‘‘

Pakistan Dorf Mohri Pur | Frauen und Teilnahme an Wahlen
اب گاؤں کی کچھ خواتین نور کے ساتھ کھڑی ہیں اس لیے وہ کچھ حد تک پر امید ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

جامن کے درخت کے نیچے خواتین کی اس ملاقات کو منعقد کرانے والی بسم اللہ نور کا کہنا ہے،’’ میں سن 2001 سے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دلانے کے لیے کام کر رہی ہوں لیکن میں کامیاب نہیں ہوئی۔‘‘  اب گاؤں کی کچھ خواتین نور کے ساتھ کھڑی ہیں اس لیے وہ کچھ حد تک پر امید ہے۔

2015 میں  اس گاؤں کی رہائشی فوزیہ طالب موہری پور کے مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والی واحد خاتون تھی جس کے بعد اسے بہت زیادہ خاندانی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ فوزیہ اب  اس فکر میں مبتلا ہے کہ کیا اس سال انتخابات میں ووٹ ڈال کر وہ ایک مرتبہ پھر ایسی صورت حال کا سامنا کرنے کو تیار ہو گی ؟

ب ج/ ع ق (اے ایف پی)