1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عملی اقدامات کا وقت آن پہنچا ہے

7 جنوری 2010

پہلی اور دوسری عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں کے درمیان بیس سال کا وقفہ تھا۔ ان بیس سالوں کے دوران تحفظ ماحول کے موضوع کو توجہ تو حاصل رہی مگر کوئی خاص اہمیت نہ دی گئی۔

https://p.dw.com/p/LODY
تحفظ ماحول کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا وقت آ گیا ہے، ماہرینتصویر: AP

اقوام متحدہ کے زیراہتمام تحفظ ماحول کے موضوع پر پہلی کانفرنس 1972ء میں سویڈن میں منعقد ہوئی تھی۔ ریو ڈی جینیرو ہو، بالی یا پھرکوپن ہیگن، اب تک ہونے والی تمام عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں سے جو بھی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں، وہ پوری نہ ہو سکیں۔ تحفظ ماحول کے لئے سرگرم تنظیمیں ان کانفرنسوں کے نتائج پرعدم اطمینان کا اظہار کرتی ہیں مگر عالمی رہنما انہیں کامیاب قرار دیتے ہیں۔ بات دھرتی کی ہو یا آسمان کی، سال 2010ء کے دوران انہیں آلودگی سے بچانے کےلئے بہت سے اہم اجلاس منقعد ہوں گے۔

گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی تحفظ ماحول کے موضوع پر دنیا بھرمیں متعدد کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک ایک بار پھر اس مسئلے پر خاص توجہ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ سال رواں کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جن اہم بین الاقوامی اجتماعات کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔

Dänemark Klimakonferenz Kopenhagen Globus
میکسیکو سٹی میں نومبر میں ہونے والی کانفرنس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔تصویر: AP

تحفظ ماحول کی کوششوں کے حوالے سے مارچ کا مہینہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس ماہ کی بائیس تاریخ کو پانی کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ہر سال بہت سی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سال مارچ کے آخرمیں ملائیشیا میں ایشیا دو ہزار دس کے نام سے ایک کانفرنس منعقد ہوگی۔ اس میں براعظم ایشیا میں پانی کے وسائل اور قابل تجدید توانائی کی ترقی جیسے موضوعات پر بات کی جائے گی۔ ایشیا کے کئی ملکوں کے مابین پانی کی تقسیم پر جو تنازعات پائے جاتے ہیں، انہیں بھی حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے، جن کے درمیان آبی تنازعے پائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ مارچ ہی کے مہینے میں تیئس تاریخ کو موسمیات کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے، جو اس سال بھی منایا جائے گا۔ مشرقی یورپی ملک رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ میں دنیا کے اہم شہروں اور خطوں کو موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں پیش آنے والے مسائل پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔ پھر یوگنڈا کے سب سے بڑے شہر اور ملکی دارالحکومت کمپالا میں افریقن واٹرایسوسی ایشن کا پندرہواں اجلاس بھی منعقد ہوگا۔

بائیس اپریل کو ارتھ ڈے یا زمین کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے زیراہتمام مرکزی تقریب جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں منعقد ہوگی۔ وہاں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی طرف سے سالانہ انعامات تقسیم کئے جائیں گے۔ اپریل ہی میں قاہرہ میں قابل تجدید توانائی کے موضوع پرایک عالمی کانفرنس بھی منعقد ہو گی۔

Aktionen anlässlich der Klimakonferenz in Kopenhagen Paris
تحفظ ماحول کے لئے سرگرم تتنظیموں کی امیدیں ابھی تک پوری نہیں ہو سکیں۔تصویر: AP

گزشتہ دسمبر میں کوپن ہیگن کانفرنس کے بعد اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مئی کے مہینے میں جرمن شہر بون میں ایک اہم اجلاس ہوگا۔ اس سالانہ اجلاس میں کیوٹو پروٹوکول کے نفاذ سے متعلق تکنیکی معاملات پر بحث کی جائے گی۔ ساتھ ہی کیوٹو پروٹوکول کے متبادل عالمی ماحولیاتی معاہدے کے بارے میں بھی بحث کی جائے گی۔ کیوٹو پروٹوکول کی مدت 2013ء میں ختم ہو رہی ہے۔ جون کی پانچ تاریخ کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جائے گا اورلندن، سڈنی اور مونٹریال سمیت کئی بڑے شہروں میں اسی حوالے سے متعدد اہم اجلاس منعقد کئے جائیں گے۔

سال 2010ء میں نومبرکے مہینے کو خاص اہمیت حاصل ہو گی۔ تب تحفظ ماحول اور کیوٹو پروٹوکول پرعمل درآمد کے سلسلے میں مشاورت کے لئے عالمی رہنما ایک مرتبہ پھر جمع ہوں گے۔ ان کی میزبانی میکسیکو سٹی کرے گا۔ آٹھ سے انیس نومبر تک ہونے والی یہ کانفرنس 2010ء میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی سب سے بڑی عالمی کانفرنس ہو گی۔

ان اجتماعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ عالمی برادری تحفظ ماحول، ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو محدود رکھنے کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ امید ہے کہ رواں سال کے دوران ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک ایک دوسرے پرالزام تراشی بند کرتے ہوئے کسی ایک معاہدے پرمتفق ہوجائیں گے۔ وعدے کرنے اور محض امیدیں دلانے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور بالآخرعملی اقدامات دیکھنے میں آئیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تحفظ ماحول کی تنظیموں کے لئے واقعی خوشی کا لمحہ ہو گا اوراُن ملکوں کے عوام بھی سکون کا سانس لے سکیں گے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی تباہی کے شدید ترین اثرات کا سامنا ہے۔

Flüchtlingslager Migrantenlager Indien Flash-Galerie
تحفظ ماحول کے حوالے سے معاہدہ ماحولیاتی تباہی سےشدید متاثر ہونے والے ملکوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

پہلی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے بیس سال بعد یعنی 1992ء میں برازیل کے شہر ریو ڈی جینیرو میں اس نوعیت کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ ریوکانفرس میں امیر صنعتی ممالک نے ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے کئی وعدے کئے تاہم یہ وعدے وعدے ہی رہے اورعملی اقدامات کا فقدان دیکھنے میں آیا۔2007ء میں انڈونیشی جزیرے بالی کی کانفرنس کواس حوالے سے خاص اہمیت حاصل رہی۔ اس کانفرنس میں 190 سے زائد ملکوں نے 2009 ء تک کیوٹو پروٹوکول کی جگہ ایک نیا عالمی ماحولیاتی معاہدہ طے کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ تاہم بالی کانفرنس میں2010 کے بعد کےعرصے میں سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے اہداف کا کوئی ذکرنہیں کیا گیا تھا۔

پھر 2009ء بھی آن پہنچا۔ گزشتہ برس کے آخری مہینے میں کوپن ہیگن منعقدہ کانفرنس میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہ رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی رہنما ایک بار پھر صرف ایک محدود معاہدے پرہی متفق ہو پائے۔ تحفظ ماحول کی تنظیموں اوربہت سے ترقی پذیر ملکوں کی اس کانفرنس سے جو امیدیں وابستہ تھیں، وہ پوری نہ ہو سکیں۔ اب کوئی اس کی ذمہ داری اگرامیر صنعتی ملکوں پرعائد کر رہا ہے تو کسی اور کی نظرمیں ترقی پذیر ریاستیں اپنے ہاں خوشحالی کی کوششوں کا بہانہ بنا کراپنی ذمے داریوں سے انکاری رہیں۔ بہرحال وجہ کچھ بھی رہی ہو، اس معاملے میں عملی کوششوں کا فقدان حقیقی معنوں میں تشویشناک ہے۔

رپورٹ :عدنان اسحاق

ادارت : مقبول ملک