1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عمران خان حکومت سی پیک معاہدے پر دوبارہ مذاکرات چاہتی ہے‘

عبدالستار، اسلام آباد
7 ستمبر 2018

چینی وزیر خارجہ ایک اہم دورے پر پاکستان پہنچ گئے ہیں جبکہ پاکستان کی نئی حکومت باسٹھ بلین ڈالر کے سی پیک معاہدے کے حوالے سے دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ عمران خان حکومت کے مطابق یہ معاہدہ بہت حد تک چین کے حق میں ہے۔

https://p.dw.com/p/34VR0
Pakistan - Imran Khan übernimmt Regierung
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo

چینی وزیر خارجہ وانگ ژی جمعے کے روز سے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان کا آغاز کر چکے ہیں لیکن ان کی باقاعدہ سرکاری ملاقاتوں کا سلسلہ ہفتے کے روز سے شروع ہو گا۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق پاکستان کی نئی حکومت سی پیک اقتصادی منصوبے کے حوالے سے ازسرنو مذاکرات چاہتی ہے۔ ایک پاکستانی وزیر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’ہمارے خیال میں یہ معاہدہ بڑی حد تک چین کے حق میں ہے۔‘‘ اس وزیر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اس معاہدے پر دوبارہ مذاکرات چاہتے ہیں تاکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اسے پاکستان کے لیے زیادہ سودمند بنایا جا سکے۔‘‘      

دوسری جانب امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیوکے طوفانی دورے کے بعد چینی وزیرِ خارجہ کا دورہ پاکستان سیاسی مبصرین کی نظر میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں چینی وزیرِ خارجہ کا تین روزہ دورہ اور سعودی وزیرِ اطلاعات کی آمد پاکستان کی طرف سے اس بات کی کوشش ہے کہ وہ دنیا میں تنہا نہیں ہے۔

Karte Map China Pakistan Economic Corridor

سِلک روڈ منصوبہ، کیا چین قرض کے پھندے تیار کر رہا ہے؟
واضح رہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے اسلام آباد کو کچھ عرصے پہلے دھمکی دی تھی کہ وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کر دیں گے۔ پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستا ن کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ ظفر نواز جسپال کے خیال میں یہ دورہ اس لئے اہم ہے کہ پاکستان واشنگٹن اور نئی دہلی کی قربت کا بغور جائزہ لے رہا ہے،’’یہ تاثر ہے کہ پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہو رہا ہے تو پاکستان امریکا اور دوسرے ممالک کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے اور چین سمیت دنیا کے کئی ممالک اسلام آباد کے ساتھ ہیں۔ پومپیو نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے حوالے سے بلیک میل کرنے کی کوشش کی لیکن دورے سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان کے پاس اور بھی راستے ہیں۔ چین پاکستان کی پہلے ہی مدد کر رہا ہے۔ وہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھی ہماری مدد کرتا رہا ہے اور فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس میں بھی ہماری مدد کرے گا لیکن ہمیں وہاں لابنگ خود کرنی پڑے گی۔‘‘
کئی ماہرین پومپیو اور چینی وزیرِ خارجہ کے دوروں کے درمیان موازنہ بھی کر رہے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں امریکی وزیرِ خارجہ پاکستان کی ’مشکلات میں اضافہ‘ کرنے آئے تھے جب کہ چینی وزیرِ خارجہ پاکستان کی مشکلات کم کرنے کے لئے آئے ہیں،’’پومپیو دھمکیاں اور بلیک میلنگ ساتھ لائے تھے اور سخت پیغام کے ساتھ آئے تھے۔ جبکہ چینی وزیرِ خارجہ نئی حکومت کو سمجھنے اور پاکستان کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھانے کے لئے آئے ہیں۔ پومپیو اس بات کو واضح کرنے آئے تھے کہ اگر پاکستان نے واشنگٹن کا ساتھ نہیں دیا کو اس کو معاشی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے جب کہ چینی وزیرخارجہ اپنے ساتھ کئی وفود لے کر آئے ہیں اور وہ ممکنہ طور پر پاکستان کے لئے مزید کچھ معاشی مراعات لے کر آئے ہیں۔ تو ان دونوں کے دوروں میں ایک واضح فرق ہے۔‘‘
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کا خیال ہے، ’’امریکا جتنی بھارت سے دوستی بڑھائے گا، پاکستان اتنا ہی چین کے قریب جائے گا۔ امریکا نے بھارت پر معاہدوں کی بارش کر دی ہے۔ نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان کئی اہم اسٹریٹیجک معاہدے ہوئے ہیں، جن پر اسلام آباد اور بیجنگ کے شدید تحفظات ہیں۔ تو میرے خیال میں پومپیو کا دورہ پاکستان، بھارت اور امریکا کا بڑھاتا ہوا اسٹریٹیجک تعاون، چینی وزیرِ خارجہ کے دورے کے دوران سب سے زیادہ موضوعِ بحث رہے گا اور چین امریکا و بھارت کو یہ واضح پیغام دے گا کہ اسلام آباد سفارتی سطح پر تنہا نہیں ہے۔‘‘

Projekt Wirtschaftskorridor Pakistan-China
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Yousuf