1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستمتحدہ عرب امارات

عرب دنيا کا پہلا جوہری پلانٹ فعال

1 اگست 2020

توانائی کے حصول کے ليے عرب دنيا کا اولين جوہری پاور پلانٹ متحدہ عرب امارات ميں اب فعال ہے۔ سعودی عرب بھی سولہ ری ايکٹرز کی تعمير کا منصوبہ رکھتا ہے۔ عرب دنيا کا اصرار ہے کہ جوہری پروگرام محض توانائی کے حصول کے ليے ہے۔

https://p.dw.com/p/3gGan
VAE Erste AKW in Barakah an das Stromnetz angeschlossen
تصویر: picture-alliance/YONHAPNEWS AGENCY

متحدہ عرب امارات کے اولين جوہری پاور پلانٹ کے ابتدائی يونٹ نے ہفتہ يکم اگست سے کام شروع کر ديا ہے۔ ايمريٹس نيوکليئر انرجی کارپوريشن (ENEC) نے اس امر کی تصديق کی کہ پلانٹ کا پہلا ری ايکٹر ہفتے سے فعال ہے۔

ابو ظہبی ميں برکہ پاور پلانٹ کوريا اليکٹرک پاور کاپوريشن کے تعاون سے تيار کيا جا رہا ہے۔ اس پلانٹ کے ابتدائی يونٹ کو دراصل تين برس قبل ہی فعال ہو جانا چاہيے تھا مگر مختلف وجوہات کی بناء پر اس ميں تاخير ہوتی رہی۔ ای اين ای سی کے مطابق نواح انرجی کمپنی نے برکہ پاور پلانٹ کے يونٹ نمبر ايک ميں کام شروع کر ديا ہے۔ تقريباً ساڑھے بائيس بلين ڈالر کی لاگت سے بننے والے اس جوہری پاور پلانٹ کی تعمير جب مکمل ہو جائے گی، تو چار ری ايکٹرز سے پانچ ہزار چھ سو ميگا واٹ بجلی حاصل ہو سکے گی۔

انٹرنيشنل اٹامک انرجی ايجنسی ميں متحدہ عرب امارات کے نمائندے حماد الکابی نے جنوری ميں صحافيوں کو بتايا تھا کہ برکہ پاور پلانٹ کی تکميل سے پائيدار ترقی کا ہدف حاصل ہو سکے گا۔ يہ امر اہم ہے کہ يہ پوری کی پوری عرب دنيا کا پہلا نيوکليئر وری ايکٹر ہے، جو توانائی کے حصول کے ليے استعمال ميں آئے گا۔

متحدہ عرب امارات کا توانائی کے ماحول دوست ذرائع پر زور

متحدہ عرب امارات کی سات رکن رياستوں ميں تقريباً دس ملين افراد آباد ہيں۔ موسم گرما ميں اس ملک ميں شديد گرمی ہوتی ہے اور ايئر کنڈيشننگ وغيرہ کے ليے خاصی بجلی درکار ہوتی ہے۔ متحدہ عرب امارات خام تيل پراسيس کرنے والا اوپيک کا چوتھا سب سے بڑا رکن ملک ہے۔

يہ ملک قدرتی گيس کے ذخائر سے بھی مالا مال ہے ليکن اس کے باوجود توانائی کے حصول کے ليے ماحول دوست طريقہ کار پر کام جاری ہے۔ حکام کی کوشش ہے کہ سن 2050 تک متحدہ عرب امارات کی بجلی کی ضروريات کا نصف حصہ ماحول دوست ذرائع سے حاصل ہو سکے۔ اس ضمن ميں لاکھوں ڈالر کی سرمايہ کاری جاری ہے۔

پڑوسی ملک سعودی عرب بھی سولہ جوہری ری ايکٹرز فعال کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے مگر فی الحال ان پر کام شروع نہيں ہوا۔

متحدہ عرب امارات کی اعلی قيادت بين الاقوامی تنظيموں کو اس بات کی يقين دہانی کراتی آئی ہے کہ ان کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے ليے ہے۔ سن 2010 سے لے کر اب تک چاليس مختلف جائزے اسی بات کی نشاندہی کرتے ہيں۔ حکام نے يہ بھی واضح کر ديا ہے کہ يورينيئم کی افزودگی کا عمل شروع نہيں کيا جائے گا۔

ابو ظہبی ميں برکہ پاور پلانٹ سعودی عرب سرحد کے پاس اماراتی ساحلی پٹی پر خليج فارس کے کنارے واقع ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ خطے ميں خليج فارس کے ہی کنارے مگر دوسری طرف ايران کا بھی ايک جوہری پاور پلانٹ قائم ہے۔ متحدہ عرب امارات امريکا کا اتحادی ملک ہے جبکہ ايران امريکا کا سخت مخالف ہے۔ يہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور ايران کے تعلقات بھی زيادہ گرمجوش نہيں ہیں۔

ع س / ع ب )روئٹرز(

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید