1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں عوامی بے چینی شدت اختیار کرتے ہوئے

8 ستمبر 2018

عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے۔ جنوبی عراق میں شروع ہونے والے مظاہروں میں ایک درجن افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/34WYU
Irak Demonstranten haben das iranische Konsulat in Brand gesetzt
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani

بغداد حکومت پر عدم اعتماد اور ناکافی شہری سہولتوں کے تناظر میں شروع ہونے والے مظاہروں میں اب ہر دن گزرنے کے بعد زیادہ شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ عراق کے بندرگاہی شہر بصرہ میں ایرانی قونصل خانے اور ایک تیل نکالنے والے مقام پر بھی مظاہرین نے جمعہ سات اگست کو دھاوا بولا۔ آئل فیلڈ پر مظاہرین نے چند ورکرز کو کچھ دیر کے لیے یرغمال بھی بنا کر رکھا۔

ایرانی قونصل خانے کی عمارت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایران مخالف نعرہ بازی بھی کی گئی۔ عراقی سکیورٹی حکام کے مطابق مظاہرین کے حملے کے وقت ایرانی قونصل خانہ خالی تھا۔ عراقی وزارت خارجہ نے اس حملے کی شدید مذمت اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ قونصل خانے پر حملہ مظاہرین کے مطالبات کے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھتا۔ انہوں نے ایسے اقدامات کو ناقابلِ قبول بھی قرار دیا۔

دوسری جانب ایرانی حکومت نے قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری عراقی حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سفارتی عمارت کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ ایران کی جانب سے بغداد حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حملہ کرنے والوں کو شناخت کر کے جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ تہران میں عراقی سفیر کو بھی طلب کر کے شکایتی مراسلہ تھمایا گیا۔

Irak Proteste in Basra
بصرہ میں جلتی ہوئی ایرانی قنصل خانے کی عمارتتصویر: Reuters/E. al-Sudani

عراقی شہر بصرہ میں کئی غیر ملکی قونصل خانے موجود ہیں۔ ان میں امریکا اور روس بھی شامل ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ نے سفارتی عملے کے خلاف عراقی مظاہرین کی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ واشنگٹن نے حکومت اور مظاہرین سے کہا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافی معاملات کو مذاکراتی میز پر بیٹھ کر حل کر یں۔

عراقی شیعہ مسلمانوں کی سب سے محترم مذہبی شخصیت آیت اللہ علی السیستانی نے بھی ان مظاہروں کی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد کرتے ہوئے نئی پارلیمنٹ کے اراکین کو تلقین کی ہے کہ وہ جلد از جلد حکومت سازی کا عمل مکمل کرتے ہوئے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی عملی کوششیں کرے۔

جنوبی عراق میں مظاہروں کو شروع ہوئے پانچ دن گزر گئے ہیں۔ اس دوران بصرہ میں کئی حکومتی عمارتوں پر حملوں کے بعد آگ بھی لگائی گئی۔ ان مظاہرین کی حکومتی سکیورٹی کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتیں ایک درجن ہو گئی ہیں۔ بصرہ میں شروع ہونے والے مظاہروں کے دور رس اثرات مجموعی عراقی معاشرت اور معیشت پر مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔

ع ح ⁄ الف الف ⁄ روئٹرز