1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں خواتین کا مقابلہ حسن، انتہا پسند غم و غصے میں

عاطف بلوچ28 ستمبر 2015

عراق میں چالیس برس بعد پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ خواتین کا مقابلہ حسن منعقد کرایا جا رہا ہے۔ تاہم انتہا پسند حلقے اس مقابلے کے سخت خلاف ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GetU
Miss World
تصویر: Getty Images

عراق میں مقابلہ حسن کا انعقاد کرانا دراصل اس شورش زدہ ملک کا ایک نیا اور نفیس رخ پیش کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اس ملک میں انتہا پسند اور قدامت پسند حلقوں نے اس مقابلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ اس سے معاشرہ گمراہی کا شکار ہو جائے گا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ قتل کی دھمکیاں وصول ہونے کے بعد کم ازکم دو خواتین نے اس مقابلے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تاہم کچھ خواتین نے تمام خطرات کے باوجود اس مقابلہ حسن میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امن کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔

منتظمین نے اس مقابلہ حسن میں سوئم سوٹ کا مقابلہ خارج کر دیا ہے لیکن اسکارف پر پابندی برقرار رکھی ہے۔ ممنکہ خطرات کے باعث اس مقابلہ حسن کا فائنل راؤنڈ ٹیلی وژن پر بھی نشر نہیں کیا جائے گا۔ چالیس برس بعد ریاستی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اس مقابلہ حسن میں کامیاب ہونے والی ’مس عراق‘، عالمی سطح پر منعقد ہونے والے ’مس ورلڈ‘ یا ’مس یونیورس‘ کے مقابلوں میں شریک ہو سکیں گی۔

انتہا پسند حلقوں کی طرف سے شدید تنقید اور حملوں کی دھمکیوں کے باوجود منتظمین، کئی شرکاء اور عوام کی ایک بڑی تعداد اس مقابلہ حسن کے انعقاد کے کامیاب انعقاد کے حق میں ہے۔

عراق کے اس مقابلہ حسن کے جج اور ترجمان سینان کمال کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقابلے عراقی عوام کو جینے کے نئے مواقع فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقابلہ نہ صرف عالمی معیارات کے مطابق منعقد کرایا جا رہا ہے بلکہ اس میں عراقی اقدار کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر اس مقابلے کا فائنل یکم اکتوبر کو منعقد کیا جانا تھا تاہم قبائلی سرداروں کی طرف سے مخالفت کے بعد اسے دسمبر تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ شیعہ نواز رہنماؤں نے ٹیلی وژن چینلز کو خبردار کر رکھا ہے کہ وہ اس مقابلے کو نشر نہ کریں۔ ان رہنماؤں کے بقول اس طرح خواتین کا مقابلوں میں حصہ لینا معاشرتی گراوٹ کا باعث ہے جبکہ اس سے دہشت گردی کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ عراق کے ایک تہائی حصے پر انتہا پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ ہے۔ یہ شدت پسند گروہ خواتین کے پردے پر زور دیتا ہے اور اگر ان کا حکم نہ مانا جائے تو وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں خواتین کو سخت سزائیں بھی دے سکتے ہیں۔

Islamischer Staat Terrormiliz IS
عراق کے ایک تہائی حصے پر انتہا پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کا قبضہ ہے۔ یہ شدت پسند گروہ خواتین کے پردے پر زور دیتا ہے اور اگر ان کا حکم نہ مانا جائے تو وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں خواتین کو سخت سزائیں بھی دے سکتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa

تاہم اکیس سالہ لبنیٰ حمید اس مقابلہ حسن میں شرکت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بغداد کی رہائشی لبنیٰ نے کہا کہ وہ عراقی خواتین کے لیے ایک مثال بننا چاہتی ہیں۔ شدت پسندوں کی دھمکیاں اٹھارہ سالہ حمصہ خالد کا حوصلہ توڑنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ ہائی اسکول کی طالبہ حمصہ کے بقول وہ اس مقابلہ حسن کو امن کے طور پر دیکھتی ہیں۔

عراق میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ آخری مقابلہ حسن 1972ء میں منعقد ہوا تھا، جس میں کامیابی حاصل کرنے والی ’مس عراق‘ وِجداں برہان الدین سلیمان نے ’مس یونیورس‘ کے مقابلے میں شرکت کی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید