1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: حکومت مخالفین کارکنان کے قتل پر امریکا کی شدید تنقید

21 اگست 2020

امریکی انتظامیہ نے عراق میں حکومت مخالف مظاہرین اور کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق اب تک ایسے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hHJu
Irak Proteste in Bagdad
تصویر: Reuters/T. Al-Sudani

عراق: حکومت مخالفین مظاہرین اور کارکنان کے قتل پر امریکا کی شدید تنقید

امریکی انتظامیہ نے عراق میں حکومت مخالف مظاہرین اور کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق اب تک ایسے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

ایک ایسے وقت جب عراقی وزیراعظم مصطفی القدیمی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا کے دورے پر ہیں، امریکی انتظامیہ نے عراق میں حکومت مخالف انسانی حقوق کے کارکنان اور مظاہرین کو چن چن کر قتل کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق سے وابستہ کئی نگراں اداروں نے متنبہہ کیا تھا کہ عراق میں حکومت مخالف کارکنان اور مظاہرین کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹیگ نے ایک بیان میں کہا، "ہم سول سوسائٹی کے کارکناں کی ٹارگٹ کلنگ اور بصرہ و بغداد میں مظاہرین پر حملوں سے سخت غصے اور صدمے میں ہیں۔ ہم مشتعل ہیں۔ ہم عراقیوں کے پرامن طریقے سے اجتماع کرنے اور اظہار خیال کرنے کے حق کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔"

محترمہ مورگن نے کارکنان کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا، "ہم عراقی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ  پرامن طور پر حق احتجاج کا استعمال کرنے والے عراقیوں پر حملہ کرنے والی ملیشیا، غنڈوں اور جرائم پیشہ گینگ کو اس کے لیے جوابدہ ٹھرائیں۔ عراقی شہریوں کو بلا خوف و خطر پر امن احتجاج کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔"

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ اکتوبر میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک تقریبا چھ سو کارکنان کو چن چن کر قتل کیا جا چکا ہے اور ہزاروں ایسے افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ "پر امن مظاہرین کے قاتلوں کا احتساب بہت ضروری ہے۔"

Irak Ausschreitungen bei Anti-Regierungsprotesten in Basrah
تصویر: AFP/H. Faleh

گزشتہ اکتوبر میں عراق میں دسیوں ہزار افراد نے بد عنوانی، ناقص حکومتی کارکردگی اور بے روزگاری جیسے مسائل کے خلاف، بغداد اور ملک کے جنوبی حصوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے۔ ابتدا میں خود حکومتی فورسز نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے ان پر فائرگ کی جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس برس جولائی اور اگست کے مہینے میں ایک بار پھر سے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں تیزی آئی ہے اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر سے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی تیزی آئی ہے۔

عراق میں انسانی حقوق کے ادارے 'ہائی کمیشن فار ہیمون رائٹس' کے ترجمان علی بیعاتی نے اس بارے میں خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹ پریس سے بات چيت میں کہا، "ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے احتجاجی مظاہروں کے پیچھے جو افراد  تھے انہیں پوری طرح سے ختم کرنے کا ایک اچھا منصوبہ کار فرماں ہے۔" انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ پر حکومت پوری طرح سے خاموش ہے اور ظاہر ہے یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ خود اس میں ملوث ہے۔

اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق سے جتنی جلدی ممکن ہوسکے اپنی فوجیوں کے انخلاء کا وعدہ دہرایا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں عراقی وزير اعظم سے ملاقات کے بعد انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا، "ہم اس دن کے شدت سے منتظر ہیں جب ہماری وہاں کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔" تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ کب تک امریکی فوج عراق سے نکل جائے گی۔

عراق میں اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ امریکی فوجی موجود ہیں۔

 ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)    

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں