1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی یوم خوراک: ہر چھٹا انسان بھوکا سوتا ہے

16 اکتوبر 2009

آج منائے جانے والے عالمی یومِ خوراک کے موقع پر صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا میں ہر چھٹے انسان کے پاس اُتنی خوراک نہیں ہے، جتنی کہ اُسے ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/K8FK
تصویر: AP

خوراک کی عالمگیر صورتِ حال کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اِس سال دُنیا میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد پہلی مرتبہ ایک ارب کی حد کو پار کر گئی۔ اٹلی کے دارالحکومت روم سے ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار گریگور ہوپے کے مطابق بھوک کے خاتمے کے سلسلے میں سیاسی عزم کا فُقدان پایا جاتا ہے۔

Nordkoreanische Arbeiter
تصویر: AP

عالمی ادارہٴ خوراک کے ڈائریکٹر جنرل ژاک دِیوف نے ایک تلخ اور بے رحمانہ حقیقت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ دُنیا سے بھوک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے حوالے سے سیاسی عزم اور ارادے کی کمی پائی جاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے اور عالمی خوراک پروگرام کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں بھوک کا سامنا کرنے والے اور انتہا درجے کی غذائی قلت سے دوچار انسانوں کی تعداد میں گذشتہ دَس برسوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

تازہ ترین بحران نے اِس اضافے کی شدت اور بڑھا دی ہے۔ دَس سال پہلے روم میں بھوک کے مسئلے پر منعقد ہونے والی مشہور سربراہ کانفرنس کے فیصلوں کو تین سال ہو چکے تھے۔ تب سن 2015ء تک پوری دُنیا میں بھوک کے شکار انسانوں کی تعداد میں نصف کمی کا ہدف طے کیا گیا تھا۔ یہ نصب العین سننے میں اچھا تھا لیکن اِسے جلد ہی فراموش کر دیا گیا۔

Frau mahlt Korn in Angola
تصویر: AP

عالمی ادارہٴ خوراک ایف اے او کا موقف درست ہے کہ بحران کسی بھی قسم کا اور کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو، امیر ممالک حیرت انگیز پھرتی اور اتفاق کے ساتھ اُس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دہشت گردی، بینکوں کے بحران یا پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملے میں تو امیر ممالک فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن بھوک کے باعث لاکھوں انسانوں کے موت کا شکار ہو جانے کے یہ ملک عادی ہو چکے ہیں۔ تب کہا جاتا ہے کہ ہاں، یہ معاملہ سنگین تو ہے لیکن اِس میں ابھی انتظار کیا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ برلن ہو یا برسلز، وہاں ایشیا اور افریقہ کے بھوکے انسانوں کی کوئی لابی نہیں، اُن کے حق میں کوئی آواز بلند کرنے والا نہیں۔

BdT Pakistan Welternährungstag Mädchen auf dem Markt in Lahore
تصویر: AP

ایف اے او نے حساب لگایا ہے کہ اگر ہم یہ چاہیں کہ سن 2050ء میں بھی عالمی آبادی کے پاس کھانے کے لئے کافی خوراک ہو تو دنیا بھر میں غریب ممالک کے زرعی شعبوں کو سالانہ چوالیس ارب ڈالر کی امداد دینا ہو گی۔ یہ رقم اُس رقم کا دَسواں حصہ بھی نہیں ہے، جو وفاقی جرمن حکومت نے بینکوں کو بچانے کے امدادی پیکیج کے لئے مختص کی ہے۔ مطلب یہ کہ بھوک کا خاتمہ ممکن ہے، بس سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ نومبر میں روم میں اَشیائے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے موضوع پر منعقدہ سربراہ کانفرنس میں عالمی رہنما بھوک کے خلاف جنگ کا اعلان کریں گے۔

تبصرہ: امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق