1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی مالیاتی بحران: سیاہ بادل چھٹنے کا امکان

عابد حسین25 اپریل 2009

عالمی مالیاتی بحران کے چنگل میں تمام اہم ملکوں کی اقتصادیات آ چکی ہیں۔ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مالیاتی اداروں اور بینکوں کی تطہیر کے لئے ریگولیٹری سسٹم کو اہم خیال کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/HeLL
گروپ سیون کے وزرائے خزانہ: روم میٹنگ میں( منعقدہ فروری سن دو ہزار نو)تصویر: AP

سات بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے سربراہان نے امریکی دارالحکومت میں اپنی میٹنگ کے دوران اتفاق کرتے ہوئے یقین کے ساتھ اظہار کیا کہ عالمی کساد بازاری کا سب سے پریشان کُن اور سخت ترین دور ختم ہو گیا ہے اور ملکوں کی اقتصادیات میں بہتری کے آثار اِس سال کے آخر تک پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ میٹنگ کے بعد اختتامی اعلان میں ایسا خوش کُن اورحوصلہ افزاء اشارہ ملکوں اور مالی اداروں کے لئے سکون کا باعث ہے۔

میٹنگ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ عالمی مالیاتی بحران کے اثرات ، اقوام کی اقتصادیات پر سے رفتہ رفتہ ہی ختم ہو سکیں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عالمی اقتصادیات کا مجموعی منظر نامہ کمزور دکھائی دے گا اور اِس کے مزید سکڑنے کا امکان بدستور موجود ہے۔ میٹنگ میں عالمی مالیاتی بحران کے بعد اقتصادیات کی بہتری کی صورت پیدا ہونے کے حوالے سے کسی یقین دہانی کا اشارہ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔

US-Finanzminister Timothy Geithner auf dem G7-Treffen in Rom
امریکی وزیر خزانہ ٹوتھی گائٹنرتصویر: AP

امریکی وزیر خزانہ نموتھی گائٹنر نے میٹنگ کے بعد بتایا کہ کسی حد تک یہ باعثِ اطمنان ہے کہ عالمی اقتصادیات پر چھائے اندھیرے نے اب چھٹنا شروع کردیا ہے۔ اِس مناسبت سے امریکی وزیر خزانہ کا مزید کہنا ہے کہ جو اعداد و شمار دستیاب ہیں اُن کے مطابق اقتصادی زوال کے عمل میں سست روی پیدا ہو ئی ہے۔ نموتھی گائٹنر کے مطابق عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے کے حوالے سے گروپ سیون اور گروپ ٹونٹی کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان نہیں ہے اور اُن کا ایجنڈا یکساں ہے۔

London bekämpft Finanzkrise mit Steuersenkungen
برطانوی وزیر خزانہ: الیسٹئر ڈارلنگتصویر: AP

ماہرین کے نزدیک سابقہ میٹنگ کے مقابلے میں تازہ اعداد و شمار پریشان کُن نہیں ہیں۔ یہ باعثِ اطمننان ہو سکتا ہے لیکن حوصلہ مند نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اس میٹنگ میں اقتصادی استحکام کا حوالہ سامنے نہیں آ یا ہے جو خاصا اہم ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے جاپانی وزیر خزانہ Kaoru Yosano کا دلچسپ ریمارکس ہے کہ اقتصادی استحکام ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اُن کے خیال میں عالمی اقتصادیات پر بدترین صورت حال ختم ہونے کے اشارے بہتری کی جانب سفر جاری رکھنے کا احساس دے رہا ہے۔

گروپ سیون کی فروری منعقدہ میٹنگ میں پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ سن دو ہزار نو میں عالمی اقتصادی حجم مزید سکڑے گا اور شاید اِسی تناظر میں برطانوی وزیر خزانہ الیسٹئر ڈارلنگ نے اپنے ملک کی اقتصادیات کے اِس سال کی پہلی سہ ماہی میں مزید سکڑنے کی تصدیق کی ہے۔

Japans Wirtschaftsminister Kaoru Yosano
جاپانی وزیر اقتصادیات و خزانہتصویر: AP

میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کمزور مالیاتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اُن کو قرضوں کی فراہمی جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کو نصفت یا لیکودیٹی کے تحت معاونت جاری رہے گی۔ اِس سلسلے میں مالیاتی اداروں کو مستحکم کرنے کے لئے مشترکہ پالیسیوں پر عمل جاری رکھنے کا واضح عندیہ سامنے آیا ہے۔ بینکوں کے اندر رکھے خراب اور کمزور کرنے والے اثاثوں کی منتقلی اور سیونگ رقوم کو تحفظ بھی بدستور جاری رکھا جائے گا۔ گروپ سیون کے ممالک کو خاص طور سے بینکوں میں رکھے گئے خراب اثاثوں کے معاملے کی سنگینی نے پریشان کر رکھا ہے۔ یہ اثاثے اپنے حجم میں انتہائی بڑی وسعت کے حامل ہیں۔ جرمنی میں ایسے اثاثوں کا حجم آٹھ سو بلین یورو سے زائد ہے۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے ساری دنیا کے مالیاتی اداروں کے خسارے اور نقصان کا اندازہ چار ٹریلیئن ڈالر تک لگایا ہے۔ امیر ملکوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی اور بینکاری نظام کو ترجیحی بنیادوں پر ازسرنو مرتب کرنے کی کوشش کریں کیونکہ مالیاتی حجم اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں یہ عمل ضروری ہے۔ اِس میں ریگولیٹری سسٹم کو وقت کی ضرورت سمجھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب کئی یورپی مالی اداروں نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے تخمینے پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

گروپ سیون میں شامل ملکوں میں امریکہ، جرمنی، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جاپان شامل ہیں۔ جب کہ گروپ ٹونٹی میں ترقی یافتہ ملکوں کے علاوہ بڑی ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملک شامل ہیں۔