1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طوفان اور سخت سردی کی لپيٹ ميں آ کر چودہ شامی پناہ گزين ہلاک

عاصم سلیم
21 جنوری 2018

پناہ کے ليے لبنان پہنچنے کی کوششوں کے دوران کئی شامی مہاجرين ايک طاقتور طوفان کی زد ميں آ کر سخت سردی کے سبب ہلاک ہو گئے۔ يہ ہلاکتيں شام اور لبنان کے درميان 330 کلوميٹر طويل سرحد کے قریب ايک پہاڑی علاقے ميں ہوئيں۔

https://p.dw.com/p/2rFMv
Bildergalerie syrische Flüchtlinge Wintereinbruch Januar 2015
تصویر: Reuters/K. Ashawi

اقوام متحدہ کی جانب سے بتايا گيا ہے کہ شام سے لبنان فرار ہونے کی کوششوں کے دوران ہلاک ہونے والے شامی پناہ گزينوں کی تعداد تيرہ ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی مقامی ترجمان ليزا ابو خالد نے ہفتہ بيس جنوری کو بتايا کہ شامی مہاجرين کا يہ گروپ انتہائی سخت سردی اور منفی درجہ حرارت ميں پہاڑی علاقے کے ايک دشوار گزار حصے سے گزرنے کی کوشش ميں تھا۔ يہ سانحہ جمعرات اور جمعے کی درميانی شب پيش آيا، جب ايک طاقت ور طوفان اور شدید سردی کے باعث اس گروپ کے کم از کم تيرہ ارکان ہلاک ہو گئے، جن میں عورتيں اور بچے بھی شامل تھے۔

لبنانی فوج کے مطابق جمعے کے روز دس افراد کی لاشيں نکال لی گئی تھيں، جن ميں دو بچے اور چھ عورتيں شامل تھيں۔ تاہم اتوار تک مزيد اموات سامنے آئيں اور اب ہلاک شدگان کی تعداد چودہ بتائی جا رہی ہے۔ لبنانی حکام کے مطابق فوجی اہلکاروں اور مقامی افراد نے شامی پناہ گزينوں کے اس گروپ ميں شامل چند ديگر افراد کو ريسکيو بھی کيا، جن ميں ايک حاملہ عورت بھی شامل ہے۔

سربیا کی شدید سردی میں پھنسے بے گھر تارکین وطن

لبنان کی مجموعی آبادی لگ بھگ چار ملين افراد پر مشتمل ہے۔ سن 2011 ميں شامی خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک پناہ گزين لبنان جاتے رہے ہيں۔ اس وقت لبنان ميں تقريباً ايک ملين شامی تارکين وطن آباد ہيں۔ ان کی اکثريت ملک کے مشرقی حصے ميں غير سرکاری بستيوں اور خيموں ميں مقيم ہے۔ انتہائی سرد موسم ميں ان پناہ گزينوں کی گزر بسر بہت ہی مشکل عمل بن جاتی ہے۔

سردی کے سبب مہاجرين کے ايک گروپ کی ہلاکت کی اطلاعات ملنے کے بعد اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے يونيسیف کی جانب سے اعلان کيا گيا کہ مہاجرین کی بستيوں ميں مقیم تارکین وطن ميں کمبل، گرم کپڑے اور ديگر اشياء تقسيم کی جا رہی ہيں۔ يونيسیف نے اپنے ایک بيان میں کہا ہے، ’’لبنانی حکام اور مقامی باشندے تلاش جاری رکھے ہوئے ہيں اور يہ امکان موجود ہے کہ پہاڑی علاقے ميں سخت سردی میں وہاں مزيد افراد اور بچے يا تو پھنسے ہوئے ہوں يا ان کی موت واقع ہو چکی ہو۔‘‘ اس بيان ميں مزيد کہا گیا ہے کہ ’ظالمانہ جنگوں کا خاتمہ‘ ہونا چاہيے اور ’بچوں کو مسلسل مايوس نہيں کيا جا سکتا‘۔