1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ساتھ ’واضح پیش رفت‘ کا خیرمقدم کرتے ہیں، نیٹو

12 فروری 2020

نیٹو نے افغان امن معاہدے کے حوالے سے ہونے والی ’واضح پیش رفت‘ کا خیرمقدم کیا ہے۔ قبل ازیں افغان صدر نے بھی ’قابل ذکر پیش رفت‘ ہونے کی تصدیق کی تھی۔ دوسری جانب امریکی صدر نے بھی مشروط امن معاہدے کی اجازت دے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Xfhf
Gewehrlauf Blumen
تصویر: picture-alliance/dpa

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہ ژینس سٹولٹن برگ نے طالبان اور امریکا کے مابین ممکنہ امن معاہدے کے حوالے سے ہونے والی 'واضح پیش رفت‘ کا خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طالبان کو اپنے حملوں میں کمی لانا چاہیے۔ قبل ازیں افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ واشنگٹن اور طالبان کے مابین 'قابل ذکر پیش رفت‘ ہوئی ہے۔ طالبان اور امریکا کے مابین گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے امن مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری ہیں۔

ممکنہ معاہدے کے تحت امریکا افغانستان سے اپنے ہزاروں فوجی نکال لے گا اور طالبان سکیورٹی کی متعدد یقین دہانیوں کے ساتھ ساتھ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں گے۔

ژینس سٹولٹن برگ کا نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کی ایک میٹنگ میں کہنا تھا، ''ہم ہر اُس اقدام کا خیرمقدم کریں گے، جس سے تشدد میں کمی آئے۔‘‘ انہوں نے اپنے اتحادیوں سے افغان مشن کی حمایت اور جاری تربیتی پروگراموں کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔

Katar | Friedenskonferenz Afghanistan
نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی مشروط اجازت فراہم کر دی ہےتصویر: AFP/Getty Images/K. Jaafar

دوسری جانب نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی مشروط اجازت فراہم کر دی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے مغربی سفارتکاروں اور دو افغان حکومتی عہدیداروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر طالبان پرتشدد کارروائیوں میں کمی لاتے ہیں تو ممکنہ امن معاہدے پر فروری میں ہی دستخط ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امن معاہدے پر دستخط ہونے میں صرف پرتشدد کارروائیاں ہی سب سے بڑی رکاوٹ رہ گئی ہیں۔

طالبان کے قطر میں موجود سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی امن معاہدے کے حوالے سے پیش رفت ہونے کی تصدیق کر دی ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی تفصیل فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ایک افغان حکومتی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ امریکا نے اصولی طور پر ایک امن معاہدے پر اتفاق کر لیا ہے لیکن اس پر دستخط اس وقت تک نہیں ہوں گے، جب تک طالبان تشدد میں کمی لانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔

کابل میں موجود ایک مغربی سفارت کار نے کہا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ طالبان کم از کم دس دن کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی لائیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والی ایک امریکی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار نو کی آخری سہ ماہی سے طالبان کے حملوں میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق طالبان 'موسم بہار‘ کے حملوں کا آغاز بھی کرنے والے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے مزید چھ ہزار جنگجو بھرتی کر لیے ہیں۔ افغان دفاعی اہلکاروں کے مطابق طالبان پہلے ہی ملک کے چالیس فیصد سے زائد رقبے پر قابض ہو چکے ہیں۔

ا ا / ع ا ( اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)