1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نصف ملین افغان بے روزگار

19 جنوری 2022

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک نصف ملین سے زائد ملکی کارکن بے روزگار ہو چکے ہیں۔ یہ بات بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/45mnk
Afghanistan
افغانستان میں ہزارہا بےروزگار کارکن زندہ رہنے کے لیے اپنے گھروں کا سامنا بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیںتصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/picture alliance

بین الاقوامی ادارہ محنت اقوام متحدہ کا روزگار سے متعلق وہ ذیلی ادارہ ہے  جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں مزدوروں، محنت کشوں اور عام کارکنوں کے حالات کار کے معیاری ہونے کو یقینی بنانا ہے۔

مسلم ممالک اور بین الاقوامی برادری طالبان حکومت کو تسلیم کریں، طالبان وزیر اعظم

اس ادارے کی طرف سے بدھ انیس جنوری کے روز جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس موسم گرما میں کابل پر قبضے کے بعد افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک نصف ملین سے زائد ملکی کارکن بے روزگار ہو چکے ہیں۔

مزید نو لاکھ کارکنوں کے بے روزگار ہو جانے کا خطرہ

آئی ایل او نے اپنی اس رپورٹ میں یہ پیش گوئی بھی کی ہے کہ سال رواں کے وسط تک، جب ہندوکش کی اس ریاست میں طالبان کو پھر ایک بار اقتدار میں آئے ایک سال پورا ہو جائے گا، مزید نو لاکھ تک افغان کارکنوں کے اپنے روزگار سے محروم ہو جانے کا خطرہ ہے۔

افغانستان کا افراتفری سے بھرا سال اور غیر مستحکم مستقبل

Afghanistan | Konfliktregion in Nahost
بے روزگار ہو جانے والے ان لاکھوں شہریوں میں بہت بڑی تعداد افغان نیشنل آرمی کے فوجیوں کی بھی ہےتصویر: Reza Shirmohammadi/AFP/ Getty Images

مارچ کے بعد لڑکیوں کے اسکول کھول دیے جائیں گے، طالبان

بین الاقوامی ادارہ محنت کے افغانستان کے لیے سینیئر کوآرڈینیٹر رامین بہزاد نے اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا، ''افغانستان میں اس وقت صورت حال بہت نازک ہے اور اس میں فوری بہتری اور استحکام کے لیے مدد کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

رامین بہزاد کے مطابق، ’’اس وقت ترجیح افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر فوری امداد کو دی جا رہی ہے۔ تاہم ملک بھر میں دیرپا بحالی کے لیے افغان عوام اور تمام نسلی گروپوں کو ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے بہتر زندگی اور باعزت روزگار تک رسائی دینا لازمی ہو گا۔‘‘

نئے بے روزگار لاکھوں افغان باشندے کون؟

گزشتہ برس موسم گرما میں ہندوکش کی اس ریاست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے جو افغان باشندے ایک بار پھر بے روزگار ہو گئے ہیں، ان میں افغان مسلح افواج کے ارکان، عدلیہ کے لیے کام کرنے والے کارکن اور وہ خواتین بھی شامل ہیں، جنہیں روزگار کی ملکی منڈی سے نکال دیا گیا ہے۔

'لاکھوں افغان موت کے دہانے پر ہیں '، اقوام متحدہ کی تنبیہ

اس کے علاوہ کئی لاکھ افغان کارکن ایسے بھی ہیں، جن کا تعلق زرعی اور تعمیراتی شعبوں اور سول سروس سے تھا اور جو ان شعبوں میں ملازمتوں کے بے شمار مواقع ختم ہو جانے سے اپنے ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے۔ ان میں سے جو ابھی تک روزگار پر ہیں بھی، انہیں بھی گ‍زشتہ کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی اس تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں روزگار کی منڈی میں سب سے بری حالت خواتین کی ہے۔

گزشتہ برس کی تیسری سہ ماہی میں برسرروزگار افغان خواتین کی تعداد میں 16 فیصد کی کمی ہوئی اور رواں برس کے وسط تک اس شرح میں مزید 28 فیصد کمی کا خدشہ ہے۔

م م / ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)