1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کو سی پیک میں شرکت کی دعوت

28 ستمبر 2021

پاکستان نے طالبان کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ایک طرف تو یہ چین کی خواہش ہے اور دوسری طرف پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔

https://p.dw.com/p/40yXG
Projekt Wirtschaftskorridor Pakistan-China
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/A. Kamal

افغانستان کے لیے پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے بتایا ہے کہ پاکستان نے طالبان حکومت کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ خان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی۔ ان کے بقول طالبان کی قیادت سے سی پیک اور دیگر منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے، جس کا مقصد افغان معیشت کو سہارا دینے کے مواقع تلاش کرنا تھا۔

'چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘ یا سی پیک بیجنگ حکومت کے وسیع تر 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوو‘ کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین قرضوں کی صورت میں پاکستان میں ساٹھ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔

سی پیک کا سب سے مہنگا منصوبہ سست روی کا شکار

بلوچستان: چینی ٹرالرز کی ماہی گیری پر مقامی آبادی کے تحفظات

سی پیک کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ملتوی: کیا چین کے ساتھ تعلقات بگڑیں گے؟

کراچی اسٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین اور سرکردہ کاروباری شخصیت ظفر موتی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ''پاکستان کی جانب سے یہ حکمت عملی ضروری تھی کیونکہ سی پیک کے بڑے باس یعنی چین نے اشارہ دیا ہے کہ طالبان کو سی پیک میں شرکت کی دعوت دی جائے۔‘‘

ظفر موتی کے مطابق چین یہ بات جانتا ہے کہ افغانستان کے بغیر وسطی ایشیا تک رسائی ممکن نہیں، ''چین وسطی ایشیا میں دلچسپی رکھتا ہے۔ چین اس خطے کی تاریخ سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کس طرح منگول طاقت کے زور پر کتنے بڑے علاقے پر قابض ہو گئے تھے۔ سوویت یونین کی تقسیم کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے بیجنگ حکومت کی حکمت عملی تھی کہ اس خطے کے لوگوں کو مالیاتی طور پر مستحکم رکھا جائے تاکہ یہ بیرونی ملکوں کی جانب نہ دیکھیں۔‘‘ ظفر موتی کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کے ذریعے یہی حکمت عملی افغانستان میں اپنائے گا۔

پاکستان تين خليجی رياستوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی کوشش ميں

امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کی ضرورت کیوں؟

کراچی اسٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین کے مطابق اسلام آباد حکومت کے لیے یہ اس وقت اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں، ''اسلام آباد کے پاس اب چین، روس، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات بہتر بنانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان کو مستقبل قریب کے لیے اپنی معاشی حکمت عملی انہی حقائق کو مدنظر رکھ کر بنانی ہو گی۔‘‘ ظفر موتی نے مزید کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ ترکی اور ملائیشیا کو بھی ساتھ لے کر آئندہ کے معاملات طے کیے جائیں۔

حالیہ دنوں کی پیش رفت

حالیہ دنوں کے دوران پاکستان، چین اور روس کے نمائندے طالبان کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ افغانستان کے لیے پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے بتایا کہ ان میٹنگز میں سلامتی اور اقتصادیات پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ بین الاقوامی سطح پر قطر اور پاکستان عالمی برادری پر زور دے رہے ہیں کہ طالبان کو تنہا نہ کیا جائے۔ ان ملکوں کا کہنا ہے کہ طالبان پر انسانی اور عورتوں کے حقوق کے احترام کے لیے زور ڈالنے کے لیے ان سے مکالمت لازمی ہے۔

کیا سی پیک دونوں ممالک کے لیے یکساں مفید ثابت ہو گا؟

عاصم سلیم (نیوز ایجنسی روئٹرز کی مدد سے)