1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا پولیس ہیڈکوارٹرز پر حملہ، 13 افراد ہلاک کئی زخمی

5 مئی 2019

طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے شمالی صوبے بغلان کی پولیس کے صدر دفتر پر تیرہ سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس حملے میں تیس سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہیں جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3Hxay
Afghanistan l Anschlag auf eine Polizeistation in Baglan
تصویر: Reuters/Stringer

شمالی صوبے بغلان کی پولیس کے ہیڈکوارٹرز صوبائی دارالحکومت پُل خمری میں واقع ہیں۔ طالبان نے اپنے حملے کی ابتدا پولیس کی عمارت کے گیٹ پر باردو سے لدی گاڑی کے حملے سے کی۔ حملے کے فوری بعد عسکریت پسندوں نے عمارت پر فائرنگ شروع کر دی۔ خودکش حملے کے بعد پولیس اہلکاروں نے جوابی کارروائی کا بھی آغاز کر دیا۔

بغلان صوبے کی حکومت کے ترجمان محمود حقمل نے پولیس ہیڈکوارٹرز پر حملے کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ حملہ اتوار پانچ مئی کو دوپہر ساڑھے بارہ بجے کیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق طالبان کے اس حملے میں کم از کم تیرہ سکیورٹی اہلکار مارے گئے ہیں۔ ان ہلاک شدگان کے علاوہ عام شہریوں سمیت چالیس سے زائد افراد زخمی ہیں۔ ہسپتال پہنچائے گئے زخمیوں میں تیس کا تعلق پولیس سے بتایا گیا ہے۔ بغلان صوبے کے انتظامی و طبی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور اس باعث ہلاکتوں میں اضافہ ممکن ہے۔

طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ بغلان کی صوبائی کونسل کے ایک رکن کے مطابق جوابی کارروائی میں کم از کم تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بقیہ حملہ آور پولیس کے گھیرے میں ہیں اور اُن کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

Afghanistan - Deutsche Bundeswehr im Einsatz
‌شمالی صوبے بغلان میں امریکا اور جرمن فوجی بھی متعین ہیںتصویر: Imago/Est/Ost

یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کا آغاز پیر چھ مئی سے ہو رہا ہے اور جمعہ تین مئی کو ختم ہونے والے لویہ جرگا کے اجلاس میں طالبان کے ساتھ جنگ بندی کی قرارداد کو منظور کیا گیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے دو روز قبل روزوں کے مہینے میں طالبان کو جنگ بندی کی پیشکش کی تھی۔

بظاہر ایسا خیال کیا گیا ہے کہ افغان طالبان نے جنگ بندی کا جواب شمالی صوبے میں ایک بڑے حملے سے دیا ہے۔ طالبان نے اشرف غنی کی جنگ بندی کی پیشکش کے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ رمضان کے مہینے میں حملے جاری رکھے جائیں گے کیونکہ اس مقدس ماہ میں جہادی سرگرمیوں کا اجر و ثواب بقیہ مہینوں سے کہیں زیاد ہے۔

دوسری جانب یہ بھی اہم ہے کہ خلیجی ریاست قطر میں طالبان کے نمائندوں کے ساتھ خصوصی امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ساتھ جاری مذاکرات اتوار پانچ مئی کو چوتھے روز میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس مذاکراتی عمل کے بارے میں طالبان کا کہنا ہے کہ اختلافات کے درمیان فاصلے کم ہو رہے ہیں۔ دوحہ مذاکراتی عمل میں غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے نظام الاوقات اور جنگ بندی شروع کرنے پر فریقین توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

پُل خمری کا شہر افغان دارالحکومت کابل سے ڈھائی سو کلومیٹر کی دوری پر شمال میں واقع ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید