1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا خاتون کانسٹیبل کے گھر پر حملہ، چھ افراد ہلاک

14 جنوری 2011

پاکستان کے ضلع ہنگو میں نامعلوم مسلح افراد نے علی الصبح ایک خاتون کانسٹیبل کے گھر پر حملہ کر کے اسے اور اس کے پانچ رشتہ داروں کو ہلاک کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/zxSa
قبائلی علاقوں میں گزشتہ چند ہفتوں سے طالبان کے حملوں میں شدت آ چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

پشاور میں حکام نے بتایا کہ قتل کی جانے والی خاتون اہلکار کا نام شمشاد بیگم تھا، جو ہنگو میں توت خاص کی رہنے والی تھی۔ ہنگو میں ایک اعلیٰ انتظامی اہلکار خالد خان نے فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ شمشاد بیگم صوبائی پولیس کی ایک کانسٹیبل تھی اور اسے گزشتہ کچھ عرصے سے طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔

ہنگو کا ضلع پاکستان کے انتہائی قدامت پسند قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے ملحق ہے۔ ہنگو میں ایک مقامی پولیس آفیسر کے بقول حملہ آورعسکریت پسندوں کی تعداد دس کے قریب تھی، جو راکٹوں، دستی بموں اور خود کار رائفلوں سے مسلح تھے۔

Flash-Galerie Stimmung in Afghanistan
طالبان ملازمت پیشہ خواتین کے سخت خلاف ہیںتصویر: picture alliance/landov

انتہا پسندوں نے شمشاد بیگم کے گھر پر حملہ جمعے کو صبح ساڑے تین بجے کیا۔ اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے پہلے شمشاد بیگم کے گھر پرایک راکٹ مارا اور اسں کے بعد گھر میں داخل ہو گئے، جہاں انہوں نے اندھادھند فائرنگ کر کے چھ افراد کو قتل کر دیا ۔

فضل حسین نے بتایا کہ اس حملے کے نتیجے میں شمشاد بیگم، اس کے دو بیٹے، ایک بیٹی اوردونندیں ہلاک ہو گئیں۔ ہنگو میں پولیس اہلکار فضل حسین کے بقول اس حملے میں شمشاد بیگم کی ایک بیٹی اور دو بیٹے زندہ بچ گئے مگروہ شدید زخمی ہیں۔

Afghanistan gefesselte Hände
عسکریت پسندی کے خلاف مہم جاری ہےتصویر: AP

پاکستان میں طالبان عسکریت پسند خواتین کے ملازمتیں کرنے کے شدید خلاف ہیں اور اس لیے انہوں نے گزشتہ کچھ عرصے سے شمشاد بیگم نامی پولیس کانسٹیبل کو یہ تحریری دھمکیاں بھی دینا شروع کر رکھی تھیں کہ وہ اپنی ملازمت چھوڑ دے ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی ملک ہے مگر اسلام آباد حکومت کو شمال مغربی پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خونریز حملے روکنے میں ابھی تک سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں گزشتہ چند ہفتوں سے طالبان کے حملوں میں شدت آ چکی ہے اور تقریبا ہر روز کیے جانے والے مسلح یا خود کش بم حملوں میں بہت سےعام شہری مارے جاتے ہیں۔

سن دوہزار سات میں اسلام آباد میں لال مسجد پر پاکستانی سکیورٹی دستوں کی خونزیز کارروائی کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کے حملوں میں محتاط اندازوں کے مطابق اب تک چار ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نامعلوم مسلح افراد نے جیو ٹیلی وژن کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ جیو نیوز چینل کا رپورٹر ولی بابر گزشتہ رات اپنے دفتر سے واپس گھر جا رہا تھا کہ چند نامعلوم مسلح افراد نے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں اس کی کار کو روکا اور پھر فائرنگ کر کے اسے قتل کر دیا۔ کراچی شہر میں پولیس کے ایک سینئر افسر کے بقول چھان بین جاری ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ ولی بابر کو کیوں قتل کیا گیا۔ چند تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ولی بابر کا قتل واضح طور پر ٹارگٹ کلنگ کا واقع ہے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عاطف بلوچ



اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں