1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان لیڈروں کے ’پاکستان میں کیمپوں‘ کے دورے، کابل کو تشویش

25 دسمبر 2020

افغان حکومت کو ان ویڈیوز پر گہری تشویش ہے، جن میں طالبان رہنماؤں کو ’پاکستان میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں‘ کے دورے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں طالبان لیڈر زخمیوں سے ملاقات کرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3nDAb
افغان طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر جنہوں نے حال ہی میں کراچی میں ایک ہسپتال کا دورہ کیاتصویر: picture-alliance/dpa/TASS/S. Fadeichev

کابل سے جمعہ پچیس دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح افغان عسکریت پسندوں کے رہنماؤں نے پاکستان میں بظاہر نہ صرف زخمی طالبان جنگجوؤں سے ملاقات کی بلکہ انہوں نے کابل حکومت کے خلاف برسرپیکار افغان طالبان کے پاکستانی شہروں میں قائم مبینہ تربیتی کیمپوں کے دورے بھی کیے۔

افغانستان: امریکی بیس پر راکٹ حملے اور غزنی میں 15 بچے ہلاک

افغان حکومت کا دعویٰ

افغان وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں آج جمعے کے روز کہا گیا، ''افغان باغی عناصر اور ان کے رہنماؤں کی پاکستان کے ریاستی علاقے میں موجودگی اور وہاں کھلم کھلا کی جانے والی سرگرمیاں افغانستان کی قومی سلامتی اور خود مختاری کی واضح خلاف ورزی ہیں۔‘‘

افغانستان کی طرف سے پاکستان پر شروع سے ہی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان کی مدد کرنے کے علاوہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کرتا ہے تاہم پاکستان کی طرف سے کابل حکومت کے ایسے دعووں کی ہمیشہ ہی تردید کی جاتی ہے۔

طالبان سے متعلق شاہ محمود قریشی کے بیان پر بحث

Afghanistan Friedensgepräche in Doha
افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین باقاعدہ امن مذاکرات ستمبر میں دوحہ میں شروع ہوئے تھےتصویر: Hussein Sayed/AP Photo/picture alliance

کابل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے اور طالبان کی قیادت کی موجودگی خطے میں نا صرف مزید بحران اور عدم استحکام کی وجہ بن رہے ہیں بلکہ یہ صورت حال افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی کوششوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

افغانستان ميں قيام امن کے ليے پاکستان کا مثبت کردار

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کابل حکومت نے ایک بار پھر ہمسایہ ملک پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ریاستی علاقے کو ان 'باغیوں‘ کے استعمال میں آنے سے روکے۔

ملا برادر کراچی کے ہسپتال میں

اسی ہفتے سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی ویڈیو فوٹیج میں افغان طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی میں دیکھا جا سکتا تھا، جس میں یہ اشارہ دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ طالبان افغان امن عمل سے متعلق اپنے تمام فیصلے پاکستان میں مقیم اپنی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد کرتے ہیں۔

افغانستان: کابل کے نائب گورنر سمیت تین افراد ہلاک

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں طالبان کے ایک اعلیٰ رہنما اور مذاکراتی مندوبین میں سے ایک ملا فضل اخوند کو بھی دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ طالبان کے ایک تربیتی مرکز میں اس تحریک کے جنگجوؤں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس تربیتی کیمپ کی جگہ کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی تاہم اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی علاقہ ہے۔

قندہار کے نواح میں بڑا حملہ، شدید لڑائی: پچاس سے زائد طالبان ہلاک

پاکستانی موقف کی ناکافی نمائندگی

کابل سے اس بارے میں موصولہ رپورٹوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ افغان حکومت نے یہ تعین کس بنیاد پر کیا کہ ان ویڈیوز میں نظر آنے والے تربیتی کیمپ پاکستانی علاقے ہی میں تھے۔ پاکستان کا مسلسل یہ دعویٰ ہے کہ وہ طالبان کو کوئی مدد فراہم کرتا ہے اور نا ہی افغان طالبان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ پاکستانی سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ابتدائی معاہدہ طے پا گیا

دوسری طرف طالبان نے تصدیق کر دی ہے کہ ملا برادر نے کراچی میں ایک ہسپتال کا جو دورہ کیا، وہ افغان طالبان کے ایک وفد کے اسی ماہ کے وسط میں پاکستان کے ایک دورے کے دوران کیا گیا تھا۔

م م / ا ا (ڈی پی اے)