1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صوفیانہ اسلام کی تعلیمات پر پاکستانی طالبان سیخ پا

عاطف بلوچ27 ستمبر 2013

دریائے سندھ کے کنارے واقع سیہون شریف میں مشہور صوفی برزگ لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینے والے تقریباﹰ سبھی زائرین عمر اور جنس کی قید سے آزاد ہو کر ڈھول کی تھاپ پر ہونے والے رقص میں حصہ لیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19pgI
تصویر: dapd

یہیں پر دنیا سے بے خبر ایک عورت وجد کی کیفیت میں تقریباﹰ روزانہ ہی اس رقص کا محور بن جاتی ہے۔ صوفی تعلیمات عدم تشدد کا درس دیتی ہیں۔ پاکستان میں کئی صدیوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان تعلیمات پر عمل کرتی رہی ہے۔ انتہا پسندی کے تلخ اثر کو ہلکا کر دینے والے ان نظریات کے ماننے والے پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں لیکن صوبہ سندھ کو اس حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم اسلامی ریاست پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں صوفی عقائد کےتحت خوشیاں مناتے ہوئے جب مرد اور خواتین مل کر رقص کرتے ہیں تو وہیں انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں یہ لوگ ایک آسان ٹارگٹ بھی بن جاتے ہیں۔

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو سندھ کا علاقہ مذہبی برداشت کے حوالے سے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم رواں برس کے دوران سندھ میں ہونے والے متعدد حملوں میں صوفیوں کے مزاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگجوؤں نے نئے محفوظ ٹھکانے بناتے ہوئے سندھ میں بھی اپنے پاؤں جمانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے نئے راستے تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں۔

Pakistan Anschlag auf dem Rehman Baba Schrein in Peshawar
پاکستانی طالبان صوفیوں کے متعدد مزاروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیںتصویر: AP

رواں برس فروری میں ہی انتہا پسندوں نے اپنے ایک حملے میں ایک معروف صوفی شخصیت کو ہلاک کر دیا تھا۔ مقتول کے بیٹے سید سرور علی شاہ بخاری نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’وہ (انتہا پسند) ہمیں ہلاک کرنے کی کوشش میں ہیں۔‘‘ سندھ کے ماری نامی دیہات میں واقع درگاہ غلام شاہ غازی مزار کے گدی نشین 36 سالہ بخاری نے مزید کہا، ’’پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اچانک ہی لوگ ہمارے مخالف ہو گئے ہیں۔ اس صورتحال میں لوگ خوفزدہ ہو چکے ہیں۔‘‘

پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک ایسے وقت میں طالبان طرز کے گروہوں کی آمد ایک پریشان کن پیشرفت قرار دی جا رہی ہے، جب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت پہلے ہی طالبان باغیوں کی کارروائیوں اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تشدد پر قابو پانے کی کوششوں میں ہے۔

سندھ میں صوفیوں کے مزاروں پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات کرنے والے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار عبدالخالق شیخ نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ان حملوں سے قبل سندھ میں عسکریت پسندی عام بات نہیں تھی۔ سندھ میں پروان چڑھنے والی کوئی عسکریت پسند تنظیم مشکل سے ہی ملے گی۔‘‘ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں طالبان کی آمد کو اگرچہ ایک وقت ہو چکا ہے لیکن اس صوبے کے دیہی علاقوں میں صورتحال کافی پر سکون رہی ہے۔‘‘ شیخ نے مزید کہا کہ ان علاقوں میں تمام جہادی طاقتوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔

صوبہ سندھ میں طالبان نظریات کے فروغ کے لیے کئی مدرسے قائم ہو چکے ہیں، جہاں لوگوں کو ’مقدس جنگ‘ کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ ان مدرسوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں، جنہیں مشرق وسطیٰ کی مختلف ریاستوں کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ’بنیاد پسندوں کی مساجد‘ کے باہر چندہ اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ ان دیہی علاقوں میں واقع مختلف مساجد پر سفید اور سیاہ رنگ کے ایسے جھنڈے بھی لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو طالبان گروپوں کے حامی استعمال کرتے ہیں۔

سنی مسلک سے تعلق رکھنے والی عسکریت پسند تنظیم ’لشکر جھنگوی‘ نے بھی سندھ میں اپنے قدم جام لیے ہیں اور اپنے نظریات کو عام کرنے کے لیے یہ انتہا پسند تنظیم سندھ کے دیہی علاقوں میں متعدد مدرسے چلا رہی ہے۔ سکیورٹی ذارئع کے مطابق شکار پور اور سکھر کے نواحی علاقوں میں جنگجو گروپوں نے اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں۔ ماری کے دہشت گردانہ حملے میں زخمی ہو جانے والے ایک مقامی باشندے ذوالفقار میمن نے روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے سے کچھ عرصہ قبل ہی شکار پور میں ایک مدرسہ بنایا گیا تھا، ’’اس سے قبل یہاں طالبان کو کوئی مدرسہ نہیں تھا۔ وہ ایک منظم طریقے سے نوجوانوں کے مذہبی نظریات بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ہم اس حوالے سے کچھ کر سکیں، ہم تو صرف اپنے روحانی بزرگوں کی پیروی کرتے ہیں۔ ‘‘

Taliban
طالبان کا کہنا ہے کہ موسیقی پر پابندی عائد کر دی جانا چاہیے جب کہ خواتین کو گھروں میں ہی رہنا چاہیےتصویر: picture-alliance/dpa

سندھ کے ایک دیہی علاقے کے رہائشی شاہ زیب چانڈیو کا کہنا ہے، ’’تاریخی لحاظ سے ہم سندھی نہ تو قدامت پسند ہیں اور نہ ہی مذہب پسند۔ ہم سیکولر ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ تمام تر دہشت گرد قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ صوفی روایت میں جہاں مذہبی برداشت کا درس دیا جاتا ہے وہیں موسیقی اور رقص بھی صوفی کلچر کے اہم عناصر میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف کٹر نظریات کے حامل طالبان کا کہنا ہے کہ موسیقی پر پابندی عائد کر دی جانا چاہیے جب کہ خواتین کو گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔

روئٹرز نے تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے حوالے سے لکھا ہے، ’’مرد اور خواتین مل کر رقص کرتے ہیں۔ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ سندھ میں ہمارے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو شریعت کے خلاف عمل پیرا ہونے والے تمام افراد کو نشانہ بنائے گی۔‘‘ تاہم دوسری طرف لال شہباز قلندر کے ماننے والوں کا نظریہ کچھ الگ ہی ہے۔ صوفی طالب علم سید محمد رضا شاہ کا کہنا ہے، ’’لوگ یقین رکھتے ہیں کہ قلندر انہیں بچا لے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں