1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’صنفی امتیاز کے خاتمے کی منزل ابھی بہت دور ہے‘

13 نومبر 2018

جرمنی کی تاریخ میں پہلی بار خاتون چانسلر بننے والی انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ خواتین نے سو سال قبل اپنے ووٹ کا حق تو حاصل کر لیا تھا مگر ان کی معاشرے میں اپنے دیگر حقوق اور جائز مقام کے حصول کی جنگ جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/38ABd
Festakt 100 Jahre Frauenwahlrecht
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے یہ بیان خواتین کو حق رائے دہی ملنے کے سو سال مکمل ہونے کے سلسلے میں جرمنی میں منعقد ہونے والی تقریبات کے موقع پر دیا تاہم ان کا کہنا تھا، ’’جرمنی کی چانسلر کے ایک خاتون ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے ضمن میں پائی جانے والی خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیا جائے‘‘۔ جرمنی کی امور نسواں کی وزارت نے ایک ملک گیر مہم شروع کی ہے، جس کا عنوان ہے، ’’آپ کس لیے لڑ رہی ہیں‘‘۔ یہ نعرہ دراصل اس بارے میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے بلند کیا گیا ہے کہ اگرچہ گزشتہ صدی میں خواتین کے حقوق کے لیے بہت کچھ حاصل کیا جا چُکا ہے تاہم اس ضمن میں ابھی بہت کچھ اور ہونا ہے۔

'مرد بن کر ہی مردوں کی گندی نظروں سے بچتی ہوں‘

Festakt 100 Jahre Frauenwahlrecht
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

انگیلا میرکل ایک ترقی یاقتہ مہذب معاشرے کی خاتون چانسلر ہو کر یہ کہہ رہی ہیں کہ خواتین کی اس جدوجہد کا مقصد دراصل معاشرے کے ہر شعبے میں صنفی مساوات کو ممکن بنانا ہے۔ میرکل چانسلر کے منصب پر 13 سال سے فائز ہیں، پر اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے اس امر کا اعتراف کیا کہ خواتین کے حقوق کے لیے ان کی وکالت کے باوجود جرمن معاشرے میں صنفی مساوات کے لیے اب بھی بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جرمنی کی تمام 16 ریاستوں میں سے ہر ایک کی پارلیمان میں خواتین اقلیت میں ہیں۔

 حجاب پہننے والی مسلم پناہ گزين خاتون، امريکی کانگريس کی رکن

1918 ء میں خواتین کو ووٹ کا حق دنیا کے دو ملکوں میں دیا گیا تھا۔ آئرلینڈ اور آذربائیجان۔ جس کے بعد دنیا کے دیگر ممالک میں عورتوں کو حق رائے دہی ملنا شروع ہوا۔ اس ضمن میں ایک المیہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کو سیاسی نظام کا حصہ بناتے ہوئے انہیں ووٹ کا حق تو ترقی یافتہ سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک میں ’’ جنڈر پے گیپ‘‘ یعنی مردوں اور عورتوں کی تنحواہوں میں عدم مساوات 21 ویں صدی میں بھی موجود ہے۔

آذربائیجان مسلم دنیا کی وہ پہلی ریاست ہے جہاں 1918 ء میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ مسلم اکثریتی معاشرہ ہونے کے باوجود ’سیکولر‘ ریاست ہے۔ اس سابقہ سویت ریاست میں کاغذ پر مردوں اور خواتین کو مساوی سلوک حاصل ہے تاہم عملی طور پر دیکھا جائے تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا کے بہت سے دیگر معاشروں کی طرح اس معاشرے میں بھی خواتین روایتی سماجی اقدار کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ گزشتہ برس شائع ہونے والے گلوبل جنڈر گیپ انڈکس میں شامل دنیا کے 144 ممالک کی فہرست میں صنفی عدم مساوات کے حوالے سے یہ ملک 98 ویں نمبر پر تھا۔

اسی دستاویز یعنی گلوبل جنڈر گیپ انڈکس میں ورلڈ اکانامک فورم نے پاکستان کو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے ضمن میں دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا تھا۔ یعنی 144 ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 143 واں تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے میں خاص طور سے حقوق نسواں کی صورتحال ہی دگرگوں ہے؟ ہرگز نہیں، میری نظر میں  پاکستانی معاشرے میں  حقوق انسانی کی صورت حال سب سے بڑا المیہ ہے۔ بہت سے دیگر ممالک کی طرح اس ملک میں بھی انسانیت رُلتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمر، صنف، رنگ و نسل اور مذہبی وابستگی  پر توجہ تو اس وقت دی جاتی ہے جب انسان کو بحیثیت انسان اُس کے بنیادی حقوق اور مقام  میسر ہوں۔

بھارت میں ’تین طلاقیں‘ مذہبی یا سیاسی مسئلہ؟