1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہباز تاثیر بازیاب کروائے گئے یا تاوان ادا کیا گیا؟

تنویر شہزاد، لاہور8 مارچ 2016

مغوی شہباز تاثیر کو بلوچستان کے علاقے کچلاک میں سکیورٹی اداروں کے ایک مبینہ آپریشن کے ذریعے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ شہباز تاثیر نے اپنی والدہ، اہلیہ اور بھائی سے کوئٹہ سے ٹیلی فون کے ذریعے بات بھی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1I9RX
Entführter Shehbaz Taseer nach Freilassung
تصویر: ISPR

کوئٹہ پولیس حکام کے مطابق تقریباﹰ پانچ برس پہلے اغوا ہونے والے شہباز کی صحت ٹھیک ہے اور انہیں جلد ہی لاہور منتقل کر دیا جائے گا۔

پاکستان کے وزر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں سینٹ کے اجلاس کے دوران ارکان پارلیمنٹ کو اس خبر سے آگاہ کیا۔ یاد رہے 26 اگست 2011ء کو شہباز تاثیر کو لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع حسین چوک سے اس وقت اغوا کیا گیا تھا، جب وہ اپنے دفتر جا رہے تھے۔ ان کے اغوا کا مقدمہ ان کی خالہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

ادھر لاہور میں کیولری گراونڈ کے علاقے میں واقع سلمان تاثیر کی رہائش گاہ میں اس وقت خوشیوں کا سماں ہے۔ سلمان تاثیر کی بیوہ آمنہ تاثیر کو مبارکبادیں دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ شہباز تاثیر نے خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ کچھ دیر پہلے اپنی والدہ، اہلیہ اور بھائی سے کوئٹہ سے ٹیلی فون کے ذریعے بات بھی کی ہے۔

Shehbaz Taseer
اس وقت سلمان تاثیر کے گھر پر سکیورٹی کے سخت انتظامات دکھائی دے رہے ہیںتصویر: privat

اس وقت سلمان تاثیر کے گھر پر سکیورٹی کے سخت انتظامات دکھائی دے رہے ہیں۔ اس رہائش گاہ پر پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری کے علاوہ خواتین کمانڈوز بھی تعینات کر دی گئی ہیں جبکہ ایس پی کینٹ امتیاز سرور حفاظتی انتظامات کی نگرانی کے لیے خود وہاں موجود ہیں۔

اب سے کچھ دیر پہلے پاکستان کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، بلاول بھٹو زرداری، پنجاب کے گورنر رفیق رجوانہ سمیت ملک کی بہت سی اہم شخصیات نے تاثیر فیملی کو شہباز تاثیر کی بازیابی پر مبارکباد دی ہے۔

ادھر ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز تاثیر کی بازیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں ان کے 2013ء میں اغوا کیے جانے والے بیٹے علی حیدر گیلانی کو بھی بازیاب کرانے میں کامیاب ہوں گی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ان کے علم میں نہیں ہے کہ دہشت گردوں نے شہباز تاثیر کو ان کے بیٹے کے ساتھ رکھا تھا یا علیحدہ۔

شہباز تاثیر کو دوران حراست تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کی ایک ویڈیو بھی ان کے گھر والوں کو بھیجی گئی تھی، جس میں شہباز نے اپنی رہائی کے لیے اپیل کی تھی۔ بعض مبصرین کے مطابق شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے تاوان کی رقم کا مطالبہ بھی سامنے آیا تھا۔ ابھی یہ تو واضح نہیں ہے کہ شہباز کی رہائی کے لیے کوئی تاوان ادا کیا گیا ہے یا نہیں لیکن بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس بات کا امکان ہو سکتا ہو کہ شہباز تاثیر کچھ عرصہ پہلے بازیاب کرا لیے گئے ہوں کیونکہ کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک کے ایک ہوٹل کے عقب میں واقع کمروں سے اس ہائی پروفائل مغوی کی بازیابی کا واقعہ حیران کن ہے۔

کوئٹہ کے صحافتی حلقوں میں ایسی اطلاعات گردش کر رہی ہیں، جن کے مطابق کچلاک کے السلیم ہوٹل کے مالک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شہباز تاثیر اس ہوٹل پر کھانا کھانے کے لیے اکیلے آئے تھے اور انہوں نے کھانا کھانے اور بل ادا کرنے کے بعد ایک فون کال کی، اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان وہاں پہنچے اور شہباز کو اپنے ساتھ لے گئے۔

اس وقت سکیورٹی حکام شہباز تاثیر سے ملاقات کر کے ان سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ملی تھیں کہ شہباز کو اغوا کرنے کے بعد چار پانچ مرتبہ مختلف گروپوں کو فروخت بھی کیا گیا تھا۔ کالعدم تنظیموں کی طرف سے تاوان کے لیے اغوا کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق لاہور کے مصروف علاقے سے دن دیہاڑے لوگوں کا اغوا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔