1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شکیل آفریدی کے لیے قانونی مشکلات میں اضافہ

افسر اعوان5 مارچ 2015

پاکستانی ڈاکٹر شکیل خان آفریدی ایک بار پھر قانونی مشکلات میں گھِر گئے ہیں کیونکہ وہ ٹریبونل ختم ہو گیا ہے جو عمر قید کے خلاف ان کی اپیل سن رہا تھا۔ آفریدی نے اسامہ بن لادن تک پہنچنے کے لیے امریکی سی آئی اے کی مدد کی تھی۔

https://p.dw.com/p/1EmN6
تصویر: dapd

شکیل خان آفریدی کو عسکریت پسندوں کے ساتھ تعلقات کے الزامات پر مئی 2012ء میں 33 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم امریکی ارکان کانگریس کا موقف ہے کہ دراصل القاعدہ کے سربراہ کی تلاش کے لیے سی آئی اے کی مدد کرنے پر آفریدی کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

آفریدی کو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں نافذ قانون کے تحت سزا سنائی گئی تھی اور ایک ٹریبونل نے گزشتہ برس ان کی سزا میں 10 برس کی کمی بھی کر دی تھی۔ تاہم اس سزا کے مکمل خاتمے کے لیے اپیل کی سماعت کے دوران انہیں طویل التواء کا سامنا رہا ہے اور آج جمعرات پانچ مارچ کو سامنے آنے والی یہ پیشرفت اس کوشش کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوئی ہے۔

مذکورہ ٹریبونل کے ایک رکن اور سینیئر وکیل پیر فدا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اب یہ ٹریبونل فعال نہیں رہا کیونکہ اس کے ارکان اور چیئرمین کے معاہدے 26 جنوری کو ختم ہو چکے ہیں۔‘‘ فدا کے مطابق ابھی تک متبادل افراد کو اس ٹریبونل کے لیے بھرتی نہیں کیا گیا اور نہ ہی پرانے ارکان کے معاہدوں کی تجدید کی گئی ہے۔

منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ پولیو کے قطرے پلانے کے بہانے اُس کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر بچوں کا ڈی این اے حاصل کیا جائے جہاں القاعدہ کے سربراہ کی موجودگی کی اطلاع تھی
منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ پولیو کے قطرے پلانے کے بہانے اُس کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر بچوں کا ڈی این اے حاصل کیا جائے جہاں القاعدہ کے سربراہ کی موجودگی کی اطلاع تھیتصویر: picture-alliance/dpa

اے ایف پی کے مطابق اس خبر کی تصدیق وفاق کے زیر انتظام علاقوں فاٹا (FATA) ٹریبونل کے ایک اہلکار کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ پیر فدا کے مطابق یہ ٹریبونل عملی طور پر ختم ہو چکا ہے اور اب یہ بات واضح نہیں ہے کہ شکیل آفریدی کی اپیل پر اگلی سماعت کب تک ممکن ہو سکے گی۔

آفریدی کے وکیل قمر ندیم کے مطابق، ’’وہ صرف ایک کے بعد ایک تاریخ آگے بڑھا رہے ہیں اور مقدمے کی سماعت کو ملتوی کرتے جا رہے ہیں۔‘‘

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات حاصل کی تھیں تا کہ وہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کرنے کے لیے ایک فرضی انسداد پولیو مہم چلائیں۔ اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ پولیو کے قطرے پلانے کے بہانے اُس کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر بچوں کا ڈی این اے حاصل کیا جائے جہاں القاعدہ کے سربراہ کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ اس ڈی این اے سے اسامہ بن لادن کی وہاں موجودگی کی تصدیق کی جانی تھی۔

ایبٹ آباد میں امریکی خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں پاکستان کی جانب سے ابتدائی تحقیقات کے سلسلے میں آفریدی کو طلب کیا گیا تھا اور امریکا کی مدد کرنے پر اس کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ گزشتہ برس جنوری میں واشنگٹن نے پاکستان کو دی جانے والی 33 ملین ڈالرز کی امداد کو آفریدی کی رہائی سے مشروط کر دیا تھا۔

سی آئی اے کی طرف سے اسامہ بن لادن تک پہنچنے کے لیے چلائی جانے والی جعلی پولیو مہم کے بعد پاکستانی طالبان کی طرف سے انسداد پولیو مہم میں شریک ورکرز پر حملوں کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں جس کے نتیجے میں دسمبر 2012ء کے بعد سے اب تک 74 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔