1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافت

شکریہ سر آصف غفور!

شاہ زیب جیلانی
16 جنوری 2020

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سکبدوش ہونے والے سربراہ میجر جنرل آصف غفور اپنے سیاسی بیانات، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور سوشل میڈیا پر ناقدین سے الجھنے کی وجہ سے متنازعہ رہے۔

https://p.dw.com/p/3WJPi
Pakistan Asif Ghafoor
تصویر: Imago/Xinhua

جمعرات کو انہیں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )  کی سربراہی سے ہٹا کر جنرل کمانڈنگ آفیسر (جی او سی) اوکاڑہ لگا دیا گیا۔

ان کی جگہ میجر جنرل بابر افتخار کو نیا ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات کردیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے نئے ڈی جی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی میں درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں۔ 

فوج کی طرف سے میجر جنرل  آصف غفور کو تبدیل کرنے کے اعلان کے بعد جلد ہی ٹویٹر پر یہ موضوع ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ ان کی شخصیت سے متاثر لوگوں نے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

خود میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں اپنے پرستاورں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں مضبوط رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنے کی تلقین کی۔ 

اکثر جمہوری ممالک میں اس قسم کی فوجی تعیناتیاں معمول کا حصہ ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں فوج کے ساتھ ساتھ آئی ایس پی آر کی اہمیت اور طاقت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ ملک میں آج یہ تاثر عام ہے کہ اب یہ ادارہ پوری 'میڈیا انڈسٹری کو کنٹرول‘ کرتا ہے۔

بظاہر دوستانہ مزاج کے حامل میجر جنرل آصف غفور ملکی معاملات پر اظہار خیال کرنے میں اپنی 'حدود سے تجاوز‘ کرنے کی پروا نہیں کرتے تھے۔

بات داخلی سیاست کی ہو، خارجہ پالیسی، معیشت یا عدالتی معاملات کی، انہیں اکثر ٹی وی پروگراموں سے شکایت رہتی تھی کہ وہ فوج کے نقطہ نظر سے چیزوں کو کیوں نہیں سمجھا پاتے؟ 

 

Shahzeb Jillani DW Mitarbeiter Urdu Redaktion
تصویر: DW

انہوں نے مئی دو ہزار سترہ میں ڈان لیکس کے معاملے پر  ایک حکومتی اعلامیے کو سرعام  ایک ٹویٹ میں مسترد کیا، جس کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اپنے نامزد کردہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آنا شروع ہوئے۔  

اپنے تین برسوں میں میجر جنرل آصف غفور نے باقاعدہ نیوز کانفرنسوں کا رواج شروع کیا، جسے ملک کے درجنوں چینل بیک وقت لائیو دکھاتے رہے۔

شروع میں ان نیوز کانفرنسوں میں بظاہر مخصوص افراد سے پہلے سے طے سوالات کرائے جاتے تھے لیکن جب اس کا زیادہ مذاق اڑایا گیا تو بعد میں جانے مانے صحافیوں کو بھی مدعو کیا جانے لگا۔

ایسی ہی ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے 'ففتھ جنریشن وار‘ پر کھل کر اظہار کیا اور پاکستان کے بعض سینئر صحافیوں کے ٹویٹر اکاؤنٹس کو فوج پر تنقید کرنے والے مبینہ ملک دشمنوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ صحافیوں نے ان کے اس اقدام کو کھلی دھمکی قرار دیا اور ان پر خاصی نکتہ چینی ہوئی۔   

میڈیا کے ساتھ ان مباحثوں میں میجر جنرل آصف غفور اکثر اپنی فکری صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرتے تھے۔

اکتوبر دو ہزار سترہ میں ملک میں فوج کی طرف سے اپنی حدود سے تجاوز کرنے پر تشویش بڑھ رہی تھی۔ ایسے میں کور کمانڈرز کا ایک طویل اجلاس ہوا، جس کے بعد فوج  کی طرف سے کوئی اعلامیہ جاری نہ کیا گیا۔ صحافیوں نے جب میجر جنرل آصف غفور اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ''خاموشی میں بھی اظہار ہوتا ہے۔‘‘

ان کا یہ دلچسپ  جملہ شہ سرخیوں کی زینت بنا اور اس نے مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔                      

میجر جنرل آصف غفور  پر الزام ہےکہ انہوں نے نجی ٹی وی چینلوں پر فوج کی ترجمانی کرنے والے منظور نظر صحافیوں اور اینکروں کو فروغ دیا اور سیاست میں فوج کی مداخلت پر تنقید کرنے والے آزاد صحافیوں کو اداروں سے فارغ کروایا۔کئی سینیئر صحافیوں کے مطابق یوں ان برسوں میں فوج کا شعبہ تعلقات عامہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کا مرکز بن کر ابھرا۔

ان سے پہلے عاصم باجوہ نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ملک کی طاقتور اور مقبول ترین شخصیت کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

عاصم باجوہ کے دور میں آئی ایس پی آر کے آپریشنز کو زبردست وسعت دی گئی۔ فوجی قیادت کی تشہیر کے لیے ملٹی میڈیا اسٹوڈیوز بنائے گئے۔  پاک فوج سے محبت اور حب الوطنی کا جذبے کو اجاگر کرنے کے لیے فلمیں اور گانے بنوانے پر بھی وسائل خرچ کیے گئے۔

 عسکری قیادت کا امیج بہتر بنانے کے لیے اشتہاری مہم چلائی گئی اور نوجوانوں کی ایک پوری کھیپ تیار کی گئی، جو سوشل میڈیا پر پاکستان کے 'سائیبر جنگجو‘ بن کر ابھرے۔ 

آئی ایس پی آر کے یہ سائیبر سپاہی شاید آج شاید کچھ مایوس ہوں لیکن انہیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہییے، کیونکہ انہیں اپنے ہم وطنوں کے خلاف جو محاذ سونپا گیا ہے اس پر کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ غفور صاحب کا اپنا قول ہے کہ "ادارہ اہم ہوتا ہے شخصیات نہیں۔"