1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان واقعہ: پختون قوم پرست چراغ پا

عبدالستار، اسلام آباد
27 مئی 2019

شمالی وزیرستان کے واقعے پر خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر پشتون علاقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جب کہ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی نے اس مسئلے کو ہر سطح پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3JBPu
Pakistan Protest Pashtun Protection Movement in Lahore
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

رات گئے اس واقعے کے خلاف کوئٹہ، لورالائی، پشین، ژوب، چمن، کراچی، قلعہ سیف اللہ، سوات، پشاور، بنوں اور موسیٰ خیل سمیت ملک کے کئی علاقوں میں مظاہرے ہوئے، جب کہ آج بھی ملک کے کچھ حصوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پختون قوم پرست جماعتوں کے کارکنان پاکستانی میڈیا کے رویے پر چراغ پا ہیں جب کہ پی ٹی ایم کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں موجود پختون سیاسی کارکنان اور عوام اس واقعے کے خلاف احتجاجی پروگرامز ترتیب دے رہے ہیں۔

کئی ناقدین کے خیال میں اس واقعے نے پختون قوم پرستی کے جذبات کو ابھار دیا ہے اور پختون رہنماؤں کے بیانات ان جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور معروف پشتون قوم پرست سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس واقعے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ کل کا واقعہ پختونوں پر لشکر کشی کرنے اور ان کی نسل کشی کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے دہشت گردی کی جنگ کے نام پر اربوں ڈالرز کمائے ہیں اور پختونوں نے ستر ہزار جانیں قربان کیں۔ ان کا گھر بار چھوٹا اور ان کا کاروبار تباہ ہوا۔ کل کے واقعے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی یہ جنگ انتہا پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ پختونوں کے خلاف ہے۔‘‘

Pakistan Taliban Attacke in Wana
ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ پی ٹی ایم والے مسلح ہو کر آئے اور انہوں نے فائرنگ کی، جس سے پانچ سپاہی زخمی بھی ہوئے، اسحاق خاکوانیتصویر: DW/M. Shah

پاکستان میں ذرائع ابلاغ اور ریاستی اداروں کی طرف سے کل کے واقعے کی ذمہ داری پی ٹی ایم پر ڈالی گئی لیکن عثمان کاکڑ کا یہ دعویٰ ہے کہ پی ٹی ایم اس واقعے کی بالکل ذمہ دار نہیں ہے: ’’فائرنگ فوج کی چوکیوں سے کی گئی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ فاٹا کو مفتوحہ علاقہ سمجھتی ہے۔ لیکن ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔ ہم نے کل بھی اس واقعے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج کیا اور ہم مزید احتجاج بھی کریں گے۔ ہماری پارٹی اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھائے گی۔‘‘

سوات سے تعلق رکھنے والے پی ٹی ایم کے رہنما علی حسن عثمان کاکڑ کے اس غصے کو جائز قرار دیتے ہیں: ’’کل کے واقعے کی وجہ سے پورے پختون بیلٹ میں بہت غصہ ہے لیکن ہم اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم ایک جنگ مخالف تحریک ہیں۔ ہم کیوں کسی پر فائرنگ کریں گے۔ ہم اس واقعے کے خلاف پورے ملک اور دنیا کے مختلف حصوں میں پر امن طریقے سے مظاہرہ کریں گے۔‘‘

منظور پشتین سے کچھ سوال اور ان کے جواب

اتوار 26 مئی کو پیش آنے والے واقعے پر جہاں پی پی پی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے پی ٹی ایم کے پر امن احتجاج کے حق کو تسلیم کیا ہے وہیں کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال کی کچھ ذمہ داری پی ٹی ایم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ معروف تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کی طرف سے بھی اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے، جس کی وجہ سے صورتِ حال کشیدہ ہوئی:  ’’کل کے واقعے کی وجہ سے درجہ حرارت بہت بڑھ گیا ہے۔ اب اس کو نیچے لانے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی ایم کا جو بیانیہ ہے اور ان کے جو نعرے ہیں، ان کو کئی حلقے بہت اشتعال انگیز قرار دیتے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ انہیں اسپیس نہیں دیا گیا۔ ان کے پانچ امیدوار انتخابات میں کھڑے ہوئے۔ انہوں نے شروع میں پورے ملک میں جلسے بھی کیے لیکن ان کے اسٹیج سے ایسے نعرے لگائے گئے، جن کو کئی حلقے اشتعال انگیز سمجھتے ہیں۔ اگر آپ کو پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو آپ کارویہ محتاط ہونا چاہیے۔‘‘

پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے کردار پر اس واقعے کے حوالے سے بہت تنقید ہورہی ہے لیکن رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ جب ریاست کسی تنظیم کے لیے کہہ دے کہ اس کا وقت ہوگیا ہے تو پھر میڈیا محتاط ہو جاتا ہے: ’’ذرائع ابلاغ کیوں کسی ایسی تنظیم کے لیے رسک لیں گے، جس کے بارے میں ریاستی ادارے کہیں کہ اس کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ ایسی صورت میں ذرائع ابلاغ سیف کھیلتے ہیں اور سیلف سینسر شپ بڑھ جاتی ہے۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں میڈیا کی رسائی بھی نہیں ہے تو وہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز پر ہی انحصارکرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی ایسے موقع پر اپنے مفادات کے تحت موقف اختیار کرتی ہیں۔‘‘

Pakistan Sadiq Zharak in Quetta
اس واقعے کے خلاف کوئٹہ، لورالائی، پشین، ژوب، چمن، کراچی، قلعہ سیف اللہ، سوات، پشاور، بنوں اور موسیٰ خیل سمیت ملک کے کئی علاقوں میں مظاہرے ہوئے۔تصویر: shal.afghan

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے ہفتوں میں پی ٹی ایم کے خلاف سختیاں بڑھ سکتی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت ریاستی رٹ کو چیلنج نہیں ہونے دے گی۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کی ذمہ داری پی ٹی ایم پر عائد ہوتی ہے: ’’ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ پی ٹی ایم والے مسلح ہو کر آئے اور انہوں نے فائرنگ کی، جس سے پانچ سپاہی زخمی بھی ہوئے۔ آخر سپاہی خود تو اپنے آپ کو گولی نہیں ماریں گے۔ انہیں زخمی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ ریاست کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، جس کو دشمن ممالک اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی پوزیشن بہت واضح ہے کہ پی ٹی ایم کےکچھ مطالبات جائز ہیں لیکن ان کو پیش کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ گالیاں نکالیں: ’’اگر پی ٹی ایم پر امن طریقے سے اپنی جدوجہد کرے گی تو ہم سنیں گے بھی اور ان کے مسائل کو حل بھی کرنے کی کوشش بھی کریں گے لیکن اگر انہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو پھر قانون حرکت میں آئے گا اور کسی کو بھی ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

آئی ایس آئی نے نہیں، پولیس نے گرفتار کیا تھا، گلالئی

 

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید