1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شفاف اورآزادانہ انتخابات کی توقع نہیں، انسانی حقوق کمیشن

شیراز راج
18 جولائی 2018

سیاسی جماعتوں کے علاوہ انسانی حقوق کمیشن، سیفما اور یورپی یونین کے انتخابی مبصرین کی ٹیم نے انتخابات کی شفافیت کے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے ہیں۔

https://p.dw.com/p/31iQP
EU-Wahlbeobachter in Pakistan 2018
تصویر: European Union Election Observation Mission to Pakistan, 2018

اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان سے خصوصی ملاقات میں اپنے خدشات اور مطالبات پیش کرنے کے بعد انسانی حقوق کمیشن نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات پاکستان کی انتخابی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات ہوں گے۔ انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بہت بڑے پیمانے پر سیاسی جماعتوں کی مخالفت اور حق میں، مداخلت کی جائے گی۔ کمیشن کے سابق سیکرٹری اور سینیئر صحافی،آئی اے رحمان کا کہنا تھا، "ہمیں سنجیدہ خدشات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابات آزادانہ اور شفاف نہیں ہوں گے۔" انکا کہنا تھا کہ قبل از انتخابات دھاندلی کے واضح ثبوت موجود ہیں جنہیں الیکشن کمیشن کے گوش گزار کیا گیا ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے امیدواروں اور کارکنوں کو حراساں کیا جا رہا ہے اور اسکے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ واپس کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ آئی اے رحمان کے مطابق، "ہم پولنگ اسٹیشنز کے اندر فوجیوں کی تعیناتی کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ "سیاسی کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کرنا انتہائی قابل مذمت ہے۔"

انسانی حقوق کمیشں کے نمائندہ وفد نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چیف الیکشں کمشنر سے ملاقات کے دوران انہیں آگاہ کیا گیا کہ میڈیا خصوصا" ڈان اور دی نیوز کو کس طرح ہراساں کیا گیا ہے اور کس طرح میڈیا کو بعض امیدواروں کے اشتہارات شائع کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ چیف الیکشں کمشنر ان تمام حقائق سے یکسر لاعلم تھے۔ مثال کے طور پرکالعدم تنظیموں کے کھلے عام کام کرنے کے حوالے سے کمشنر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کالعدم تنظیم متحرک ہے تو انہیں اس بارے میں فورا" آگاہ کیا جائے۔

انسانی حقوق کمیشن کے وفد نے الیکشں کمشن سے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی گئی ہے، میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ عائد ہے، صحافیوں اور صحافتی اداروں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرکے انہیں چند سیاسی جماعتوں اور انکے راہنماؤں کی حمایت یا مخالفت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ، "مسلم لیگ (ن) کے خلاف پنجاب میں اور پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور انکی مخالف جماعتوں اور دھڑوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حامی یا اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو تشدد، اغوا، دھمکیوں اور سنسرشپ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔"

دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن کی کونسل رکن، اور معروف وکیل، حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ "جن مذہبی انتہا پسند قوتوں کو ختم کیا جانا چاہیے تھا وہ نہ صرف ابھی تک قائم ہیں بلکہ حملے کر رہی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آئندہ انتخابات جس ماحول میں منعقد کرائے جا رہے ہیں، اسکا نتائج پر اثر پڑے گا کیونکہ سیاسی جوڑتوڑ اور اکھاڑ پچھاڑ کی جا رہی ہے۔" انتخابی عمل میں فوج کو غیر معمولی کردار اور اختیارات دینے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " ساڑھے تین لاکھ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں اور انہیں مجسٹریٹ کے اختیارات دیے جا رہے ہیں۔"

دوسری طرف معروف صحافتی ادارے، سیفما نے پندرہ جولائی کو ایک سیمینار منعقد کیا جس کا عنوان تھا "انتخابات میں مداخلت بند کرو اور آزادانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بناؤ"۔ اس سیمینار میں بارہ نکاتی ایجنڈا پیش کیا گیا۔ اس میں جو مطالبات پیش کیے گیے ان میں، "غیر منتخب اداروں کی جانب سے انتخابی عمل میں جاری مداخلت کا فوری خاتمہ، ووٹنگ کے عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہونے کی یقین دہانی، تمام فریقین کی جانب سے ضابطہ اخلاق پرمکمل عمل کی یقین دہانی" جیسے مطالبات شامل تھے۔ اس کے علاوہ سیفما سیمینار میں نیب سے مطالبہ کیا گیا کہ انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے "محدود احتساب" کا سلسلہ ختم کرے۔ اسی طرح مطالبہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیموں کے انتخابات میں حصہ لینے پر فورا" پابندی لگائی جائے، میڈیا اور سوشل میڈیا سے تمام دباؤ دور کیا جائے، ریاستی اداروں کے اہلکار انتخابی عمل میں اپنی خدمات سر انجام دیتے ہوئے اپنے آئینی ذمہ داریوں اور حلف کا پاس رکھیں۔ سیفما کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ "ملکی اور غیر ملکی انتخابی مبصرین کو مکمل سہولتیں اور آزادی فراہم کی جائے۔"

پہلی مرتبہ دس فیصد خواتین کا ووٹ ڈالنا لازمی

تاہم یورپی یونین کے مبصر مشن کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ خط کے مطابق،"ہم جون کے ابتدائی دنوں میں پاکستان آنے کے لیے بالکل تیار تھے لیکن انتظامی تاخیر اسقدر کی گئی کہ ہماری ٹیم 24 جون کو پہنچ سکی اور ہمارے 60 طویل المدتی مبصرین جولائی کے آغاز میں پاکستان پہنچ سکے۔ اس مختصر وقت میں ہماری مبصر ٹیم کے لیے اپنا کام کماحقہ سرانجام دینا مشکل ہے۔ ای یو مشن کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں جاری انتخابی ماحول کا مشاہدہ کرنا اور مقامی سطح پر انتطامیہ کے کام کو دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔"

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے راہنما، سید مشاہد حسین نے کہا، "اس وقت تمام جمہوری جماعتیں قبل از انتخابات دھاندلی کی دہائی دے رہی ہیں۔ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ سب کو مساوی مواقع فراہم کرے۔ تیرہ جولائی کو ہم نے پرامن عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا لیکن ہماری قیادت اور کارکنوں کے خلاف 130 مختلف دفعات کے تحت 16868 مقدمات قائم کیے گئے۔ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔"

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک "دھاندلی مخالف نظام" متعارف کروایا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے باقاعدہ طور پر دھاندلی کی پیش بندی کی ہے اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس نظام کے تحت مختلف حلقوں کے امیدواروں کے درمیان رابطے کا نظام، اطلاعات کی فوری فراہمی، قانونی امداد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی، سوشل میڈیا ٹیم کی خصوصی تربیت اور ملکی اور غیر ملکی مبصر ٹیموں کے ساتھ ہاٹ لائن رابطہ ہو گا۔ دھاندلی کے مرتکب ہونے والے کسی بھی شخص کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے گی اور اسے سوشل میڈیا پر 'ایکسپوز' کیا جائے گا۔ 

معروف صحافی، انسانی حقوق کی کارکن اور ایچ آر سی پی کی کونسل رکن، ماروی سرمد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموری طاقتوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، میڈیا کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور اپنی پسندیدہ جماعت کو جتوانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ماروی سرمد کے الفاظ میں، "عدلیہ، الیکشن کمشن اور نیب، سبھی 'خلائی مخلوق' کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں جسکا مقصد ایک کمزور، منقسم اور باہم متحارب پارلیمان کا قیام ہے جو بنیادی فیصلے کرنے کے اختیار اور طاقت سے عاری ہو۔"

ماروی سرمد کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ درحقیقت آئین میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے کی جانے والی اٹھارویں ترمیم ختم کرنا چاہتی ہے۔ ’’وہ ایک کٹھ پتلی حکومت چاہتی ہے اور اسی لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے‘‘۔

سوات میں طالبان کے خوف کے بغیر انتخابی مہم جاری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید