1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شریعت کا نفاذ ورنہ... ‘، مولانا عبدالعزیز

شکور رحیم، اسلام آباد7 فروری 2014

لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز یہ کہتے ہوئے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کالعدم تحریک طالبان کی کمیٹی سے الگ ہو گئے ہیں کہ شریعت کے معاملے کو مذاکرات میں شامل کیے جانے تک وہ اس عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

https://p.dw.com/p/1B4w3
اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے مطابق حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات پاکستانی آئین کی روشنی میں نہیں ہونے۔ چاہییں کیونکہ یہ بقول اُن کے غیر اسلامی ہے
مولانا عبدالعزیز کے مطابق حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات پاکستانی آئین کی روشنی میں نہیں ہونے۔ چاہییں کیونکہ یہ بقول اُن کے غیر اسلامی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

مولانا عبد العزیز کی علیحدگی کے بعد طالبان کی ابتدائی طور پر اعلان کردہ پانچ رکنی کمیٹی میں اب صرف دو ارکان باقی رہ گئے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمعیت علماء اسلام (ف) طالبان کی کمیٹی میں شمولیت سے انکار کر چکے ہیں۔

جمعہ سات فروری کو لال مسجد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ ان مذاکرات میں شامل ہوئے تھے لیکن حکومت نے ان مذاکرات کو اُس ملکی آئین کے دائرہ کار میں رکھنے کی شرط عائد کر دی، جسے وہ غیر اسلامی سمھجتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف پاکستان کا آئین بلکہ انصاف کا نظام بھی قرآن وسنت کے منافی ہے۔

اسلام آباد کی لال مسجد، جس میں جمعہ سات فروری کو مولانا عبدالعزیز نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا
اسلام آباد کی لال مسجد، جس میں جمعہ سات فروری کو مولانا عبدالعزیز نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیاتصویر: AP

مولانا عبدا لعزیز کا کہنا تھا کہ طالبان بھی اس آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آئین کی شرط عائد کرنے سے مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مولانا عبدالعزیز نے کہا:’’فی الوقت مذاکرات کے عمل میں شریک نہیں ہوں گے۔ جب تک حکومت یہ وعدہ نہ کرے کہ آئین نہیں بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں مذاکرات ہوں گے، وہ اس کو دستور بنائے گی اور اسلامی نظام کا وعدہ کرے گی تو ہم مذاکرات کا حصہ بن جائیں گے ورنہ جو مجھے نظر آرہا ہے، یہ مذاکرات صرف اور صرف زبانی باتیں ہیں۔‘‘ مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ آئین کو اسلام سے ہم آہنگ کیے بغیر امن کا خواب کبھی شرمندہء تعبیر نہیں ہو گا ۔

طالبان کی کمیٹی میں اب مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم باقی رہ گئے ہیں۔ جمعے ہی کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ملکی آئین اسلامی ہے اور اس میں قرآن اور سنت کے منافی کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور حکومت مذا کرات کو سبوتاژ کرنے والوں سے ہوشیار رہیں۔

مولانا عبدالعزیز کے الگ ہو جانے کے بعد طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں اب صرف دو ارکان پروفیسر ابراہیم اور مولانا سمیع الحق (دائیں) باقی بچے ہیں
مولانا عبدالعزیز کے الگ ہو جانے کے بعد طالبان کی مذاکراتی کمیٹی میں اب صرف دو ارکان پروفیسر ابراہیم اور مولانا سمیع الحق (دائیں) باقی بچے ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

دوسری جانب بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات میں ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست بات کرنے کے بجائے ذرائع ابلاغ پر زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے، جو دونوں جانب غلط فہمیوں کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ تاہم سینئر صحافی اور وقت نیوز چینل کے اینکر پرسن مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ میڈیا صرف وہی رپورٹ کر رہا ہے، جو اس کے ساتھ شئیر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’نہ صرف میڈیا کے ذریعےبات کی جا رہی ہے بلکہ اب تو باقاعدہ صحافیوں کو مذاکرات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ تو میرے خیال میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اگر صحافی مذاکرات کا آلہ بن سکتے ہیں تو میڈیا کے ذریعے بیان دینے میں کوئی برائی نہیں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ بیان کون دے رہا ہے اور کیا وہ شخص اپنے بیان پر قائم بھی ہے یا نہیں۔ میڈیا پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی‘۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکومت اور طالبان دونوں کی کمیٹیوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے براہ رست بات چیت اور تبادلہ خیال کرنا ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید