1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی خانہ جنگی، داخلی مسائل: لبنان سیاسی تقسیم کا شکار

ڈیانا ہودالی / مقبول ملک25 اپریل 2014

شامی خانہ جنگی کی وجہ سے ہمسایہ ملک لبنان کی سیاسی جماعتیں شدید داخلی تقسیم کا شکار ہیں اور انہیں اندرونی مسائل کے باعث بھی کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں نئے لبنانی صدر کا انتخاب اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BocB
تصویر: picture-alliance/dpa

لبنانی عوام اس بات کے عادی ہیں کہ ان کے ملک میں نئی حکومت کی تشکیل اور اعلیٰ ریاستی عہدوں پر تقرری یا انتخاب کا عمل بہت طویل ہو جاتا ہے۔ وجہ لبنان میں پائی جانے والی واضح سیاسی تقسیم ہے۔ ایک تازہ مثال بدھ 23 اپریل کو بیروت کی قومی پارلیمان میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے ہونے والی وہ پہلی رائے دہی تھی جو بے نتیجہ رہی۔

موجودہ صدر مشیل سلیمان کے عہدے کی مدت 25 مئی کو ختم ہو رہی ہے اور اگر تب تک ان کے جانشین کے بارے میں کوئی اتفاق نہ ہو سکا تو لبنان ایک بار پھر سیاسی خلاء کا شکار ہو جائے گا۔ اس خلاء سے بچنے کے لیے پارلیمان میں دوسری مرتبہ رائے دہی 30 اپریل یعنی اگلے بدھ کے روز ہو گی۔

Saad Hariri
سعد حریریتصویر: AP

نئے صدر کے انتخاب کے لیے پہلی رائے شماری میں سابق ملیشیا کمانڈر سمیر جعجع کو صرف 48 ووٹ ملے۔ دروز رہنما ولید جنبلات کے تجویز کردہ امیدوار کو محض 16 ووٹ ملے جبکہ سابق صدر امین جمائل کی امیدواری کی صرف ایک رکن پارلیمان نے حمایت کی۔ ووٹنگ کے ذریعے کوئی فیصلہ اس لیے بھی نہ ہو سکا کہ مجموعی طور پر پارلیمان کے 124 ارکان میں سے باقی ماندہ 59 اراکین نے اپنے ووٹ دانستہ طور پر غلط یا خالی ہی ڈال دیے۔ ایسے ارکان میں سے زیادہ تر کا تعلق حزب اللہ سے تھا۔

نبیل ایک ایسا لبنانی نوجوان ہے جو اپنے ملک کی سیاست میں بہت دلچسپی لیتا ہے۔ اس کے بقول عین آخری وقت پر نئے صدر کو منتخب کر تو لیا جائے گا لیکن کامیاب امیدوار کا تعلق شاید ان دو بڑے سیاسی دھڑوں سے نہیں ہو گا جو ایک دوسرے کے حریف ہیں اور جنہوں نے اپنے اپنے امیدوار نامزد کر رکھے ہیں۔

ان دو بڑے سیاسی دھڑوں کے نام ہیں، ’آٹھ مارچ کا اتحاد‘ اور ’چودہ مارچ کا اتحاد‘۔ پہلے گروپ کی قیادت ‌حزب اللہ کے پاس ہے اور دوسرے کی سابق وزیر اعظم سعد حریری کے پاس۔ دونوں ہی سیاسی بلاک لبنان سے شامی فوج کے انخلاء اور سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد سے ایک دوسرے کا راستہ روکنے میں مصورف ہیں۔

سعد حریری کی رہنمائی میں 14 مارچ کی تحریک مغرب نواز ہے اور شامی حکومت کی مخالف ہے۔ دوسری طرف آٹھ مارچ کی تحریک کی بڑی طاقت حزب اللہ ہے جو ایوان نواز ہے اور شامی صدر بشار الاسد کی قریبی اتحادی ہے۔

Hisbollah Hassan Nasrallah in Beirut 17.09.2012
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہتصویر: Joseph Eid/AFP/Getty Images

لبنان شامی خانہ جنگی میں براہ راست بھی شامل ہے اور بالواسطہ طور پر بھی۔ اس خانہ جنگی کے باعث لبنان کی دونوں بڑی سیاسی طاقتوں کے مابین تضادات مزید شدت اختیار کر چکے ہیں۔ شامی خانہ جنگی ہمسایہ ملک لبنان کی سیاست پر کئی طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ ان میں سے نئے لبنانی صدر کا انتخاب محض ایک پہلو ہے۔

بیروت کی پارلیمان میں شیعہ حزب اللہ کے ارکان کی تعداد کافی ہے اور حزب اللہ کے ملیشیا ارکان شام میں صدر اسد کی فوجوں کے شانہ بشانہ باغیوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں۔ لبنان میں اس وقت شام کے سرکاری طور پر رجسٹرڈ ایک ملین اور غیر سرکاری طور پر اس سے بھی زیادہ مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔

کئی ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ لبنان میں شامی خانہ جنگی داخلی سیاسی مسائل پر گفتگو سے بچنے کی علامت بن چکی ہے۔ اسی لیے اب ایک تیسری سیاسی طاقت مضبوط ہوتی جا رہی ہے، جو خود کو غیرجانبدار کہتی ہے اور دونوں بڑے گروپوں کے مابین میانہ روی سے ثالثی کی کوششیں کر رہی ہے۔ اس کے بڑٰے نمائندے دروز رہنما ولید جنبلات اور حال ہی میں مستعفی ہونے والے وزیر اعظم نجیب میقاتی ہیں۔

اس پس منظر میں لبنانی پارلیمان کے 30 اپریل کے اجلاس میں ممکنہ طور پر نئے صدر کا انتخاب بھی کیا جائے گا اور مستقبل کی ملکی سیاست کا فیصلہ بھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید