1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں امریکی حملہ، 200 افراد ہلاک، روس غصے میں

شمشیر حیدر نیوز ایجنسیوں کے ساتھ
8 فروری 2018

شام میں امریکی سربراہی میں قائم اتحاد کے صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں پر کیے گئے ایک غیر معمولی فضائی حملے میں دو سو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ امریکی اتحاد کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ ایک ’جوابی کارروائی‘ تھا۔

https://p.dw.com/p/2sMql
Symbolbild USA Russland Konflikt
تصویر: Imago

امریکی عسکری اتحاد کے اس تازہ حملے پر روس نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’جارحیت‘ قرار دیا ہے۔ امریکی قیادت میں اتحادی فورسز نے شام میں بظاہر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خاتمے کے لیے جنگ شروع کر رکھی ہے لیکن اب کی بار غیر معمولی طور پر اس اتحاد نے شامی صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔

شام پر امریکی میزائل حملے، عالمی ردعمل میں تعریف بھی تنقید بھی

امریکی فیصلہ: ایک سو برس بعد فلسطینیوں پر ایک اور کاری وار

تفصیلات کے مطابق شامی صدر کے حامی جنگجوؤں پر امریکی فضائی حملے بدھ کی شب اور جمعرات کو علی الصبح کیے گئے، جن میں کم از کم سو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے اتحادی افواج نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ کارروائیاں حالیہ دنوں کے دوران دیر الزور میں امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (یا ایس ڈی ایف) پر کیے گئے ’بڑے پیمانے پر اور بلا اشتعال حملوں‘ کے جواب میں کی گئی ہیں۔ عرب اور کرد جنگجوؤں پر مبنی اسد مخالف ملیشیا ایس ڈی ایف ان پانچ سو سے زائد گروپوں میں سے ایک ہے جنہیں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ شامی صدر کی حامی افواج نے ٹینکوں اور بھاری توپ جانے کی مدد سے دریائے فرات عبور کر کے امریکی حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف حملے کیے تھے۔ دریائے فرات عملی طور پر ایک ایسی داخلی سرحد کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ایک جانب سے روس اور دوسری جانب سے امریکی اتحاد عسکری کارروائیاں کر رہا ہے۔

امریکی اتحادی افواج کی ان کارروائیوں پر روس کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سیاست دان فرانس کلینٹسیوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’امریکی اتحادی افواج کی یہ کارروائیاں قانونی تقاضوں کے منافی ہیں اور بغیر کسی شک و شبے کے یہ کہا جا سکتا ہے یہ تازہ حملے جارحیت ہیں۔‘‘

امریکی حکام نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ امریکی اتحاد نے روسی حکام کو اس بابت آگاہ کیا تھا کہ جس علاقے میں شامی صدر کے حامی جنگجو کارروائیاں کر رہے ہیں، وہاں امریکی حمایت یافتہ ایس ایف ڈی کے جنگجو موجود ہیں۔ امریکی مرکزی کمانڈ کے مطابق بھاری ہتھیاروں سے کیے گئے ان حملوں کے وقت امریکی اور اتحادی ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی فوجی اہلکار بھی ایس ڈی ایف کے جنگجوؤں کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔

امریکی مرکزی کمان ’سینٹ کوم‘ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی اتحاد نے اسی ’بلا اشتعال اور بھرپور حملے کے ردِ عمل‘ میں شامی صدر کی حامی ملیشیا کو نشانہ بنایا۔ بیان کے مطابق، ’’اتحادی فوج کے اہلکاروں اور خطے میں اپنے اتحادیوں کے دفاع کے لیے امریکا کی زیر قیادت اتحاد نے یہ کارروائیاں کیں۔ ان فضائی حملوں کا مقصد شامی حکومتی فورسز کی توجہ دوسری جانب مبذول کرانا اور ہمارے اتحادیوں کے خلاف جاری جارحیت کو روکنا تھا۔ یہ (امریکی حمایت یافتہ شامی باغی) عالمی اتحادی قوتوں کے ساتھ مل کر داعش کو شکست دینے کے مشن پر ہیں۔‘‘

ایک جنگ لیکن کئی محاذ

خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں امریکی اور روسی افواج کے بعد اب ترک فوج بھی کارروائیاں کر رہی ہے۔ ماسکو باغیوں سے نمٹنے کے لیے اسد حکومت کی حمایت میں سرگرم ہے جب کہ امریکا شامی کردوں سمیت کئی ایسے عسکری گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، جو اسد حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دوسری جانب ترکی بھی بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کا حامی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے شامی کردوں کے خلاف بھی اپنی طرف سے جنگ شروع کر رکھی ہے۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ شامی جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شامل تمام غیر ملکی قوتیں داعش کے خلاف جنگ کرنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہیں۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش شام کے بیشتر علاقوں پر اپنا قبضہ کھو چکی ہے لیکن اس کے جنگجو اب بھی ملک بھر میں سرگرم ہیں۔

’داعش کے خلاف سعودی فوجی اتحاد زمینی دستے بھی بھیج سکتا ہے‘

دنیا میں عدم استحکام کا ایک نیا دور؟ ایک چشم کُشا رپورٹ