1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں النصرہ فرنٹ کے ترجمان سمیت کئی ہلاک

عابد حسین4 اپریل 2016

شام میں عسکریت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ کے ایک اجلاس کو فضائی حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں میں اس جہادی گروپ کے کئی افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں النصرہ فرنٹ کا ترجمان ابو فراس السوری بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/1IPFD
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/M. Dairieh

مختلف ذرائع نے اتوار کے روز القاعدہ سے وابستگی رکھنے والے شامی شدت پسند گروہ النصرہ فرنٹ کے ایک ٹھکانے پر کیے گئے فضائی حملوں میں کم از کم بیس جنگجووں کی ہلاکت کا بتایا ہے۔ ان ہلاک شدگان میں عسکریت پسند گروپ کا ترجمان بھی مارا گیا۔ اطلاعات کے مطابق النصرہ فرنٹ کا ترجمان ابو فراس السوری اپنے بیٹے سمیت عسکریت پسندوں سے ملاقات میں مصروف تھا کہ فضائی حملوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ السوری کا اصل نام رضوان ناموس ہے اور وہ سابقہ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑائی میں شریک ہو چکا ہے۔

ابو فراس السوری القاعدہ کا ایک پرانا رکن ہونے کی وجہ سے النصرہ فرنٹ کے جنگجووں میں خاصی عزت و تکریم رکھتا تھا۔ اُس نے افغانستان ہی میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن اور عالمی جہاد کا بانی قرار دیے جانے والے عبداللہ یوسف عزام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ فلسطینی نژاد عزام ہی نے اسامہ بن لادن کو افغانستان پہنچ کر روس کے خلاف جہاد شروع کرنے کی تلقین کی تھی۔ عزام سن 1989 میں پشاور میں ایک نصب شدہ بم کے پھٹنے سے ہلاک ہوا تھا۔ ابو فراس السوری بن لادن اور عزام سے ملاقاتیں کرنے کے بعد سن 2011 میں شام واپس آ گیا تھا۔ مبصرین کے مطابق السوری کی ہلاکت بلاشبہ النصرہ فرنٹ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہو گی۔

Syrien Islamistische Kämpfer der Al-Nusra Front
شام میں باغیوں کا جتھہ اگلے محاذ کی جانب بڑھتا ہواتصویر: Getty Images/AFP/O.H. Kadour

شامی تنازعے پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق اتوار کے حملے میں جو بیس عسکریت پسند مارے گئے ہیں، ان میں النصرہ فرنٹ کے علاوہ جند الاقصیٰ کے جہادی بھی شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ہلاک شدگان میں سات سینیئر کمانڈر اور انتظامی امور کے ماہر بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان کے چند انتہا پسند بھی فضائی حملے کا نشانہ بنے۔ یہ امر اہم ہے کہ رواں برس ستائیس فروری سے عالمی طاقتوں کی کوششوں سے شام میں کمزور جنگ بندی جاری ہے لیکن اِس کا اطلاق النصرہ فرنٹ اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ پر نہیں ہوتا ہے۔

آبزرویٹری نے یہ بھی بتایا ہے کہ جہادیوں کا یہ اجلاس ادلب صوبے کے کسی مقام پر جاری تھا اور قوی امکان ہے کہ یہ حملے شامی ایئر فورس نے مخبروں کی اطلاع پر کیے تھے۔ ادلب کے شامی صوبے ہی میں النصرہ فرنٹ کے خلاف دیگر مقامات پر بھی فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ گزشتہ جمعے کو النصرہ فرنٹ کے جنگجووں نے العس کے قصبے سے اسد حکومت کی فوج کو پسپا کر کے نکال باہر کیا تھا۔ حلب میں العس کا قصبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لڑائی میں جہادیوں نے لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے بارہ عسکریت پسندوں کو مار دیا تھا۔