1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: جنگ کے لیے کم سن بچوں کی بھرتی

کشور مصطفیٰ23 جون 2014

ہیومن رائٹس واچ کی منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے پندرہ سال تک کی عمر کے کم سن بچوں کو مفت تعلیم کے وعدے پر جنگ میں شامل ہونے کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1COS2
تصویر: Getty Images/AFP

رپورٹ کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینٹ لیوینٹ‘ آئی ایس آئی ایل، جس نے سرحد پار عراق میں تیزی سے وسیع تر علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا ہے، نے شام میں ان بچوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت دی تھی اور انہیں خود کُش بم حملے کرنے کی ترغیب دلائی تھی۔

اس ہیومن رائٹس گروپ نے یہ تفصیلات مختلف بچوں کے ذاتی کوائف کے حوالے سے بتائی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسے ایسے شواہد بھی ملے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کم سن بچوں کو متحرک کرنے میں مغرب نواز اور قدرے اعتدال پسند فری سیریئن آرمی کا بھی ہاتھ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ، دی اسلامک فرنٹ اتحاد اور کردوں کے کنٹرول والے علاقوں کی سکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ کی مصنفہ پریانکا موٹوپارتھی کے بقول، "بچوں کو جنگ کی فرنٹ لائن میں کھڑا کرنے کی وجہ سے شام کی جنگ کا ہولناک منظر بد تر ہو گیا ہے"۔ اس رپورٹ میں 25 بچوں کے ذاتی کوائف شامل کیے گئے ہیں۔ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ شام کی جنگ میں 14 سال تک کے کم عمر بچوں کو جنگی کارروائیوں میں معاونت کے لیے استعمال کیا گیا۔

Syrien Kindersoldaten
2011ء سے اب تک ملک میں 194 ایسے بچے ہلاک ہو چکے ہیں جو ممکنہ طور پر جنگ میں شریک تھےتصویر: Getty Images/AFP

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بچوں کے ان ذاتی کوائف کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ اُدھر برطانیہ میں قائم شامی صدر بشار الاسد کے مخالف مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے ایک روز قبل اتوار کو کہا تھا کہ شام میں اغوا ہونے والے طالبعلموں کے رشتہ داروں کو یہ خطرہ ہے کہ

’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینٹ لیوینٹ‘ آئی ایس آئی ایل ان بچوں کو کار بم حملوں یا خود کُش حملوں کے لیے استعمال کرے گی۔

شام کا بحران 2011 ء میں ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے ہونے والے پُر امن مظاہروں سے شروع ہوا تھا تاہم یہ گزشتہ برسوں کے دوران خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چُکا ہے۔ ایک طرف شامی صدر بشار الاسد کی فورسز ہیں اور دوسری جانب اُن کے مخالف متعدد عسکریت پسند گروپوں کا اتحاد ہے۔

Syrien Kindersoldaten
کم سن بچوں کو متحرک کرنے میں مغرب نواز اور قدرے اعتدال پسند فری سیریئن آرمی کا بھی ہاتھ ہےتصویر: Getty Images/AFP

دریں اثناء حزب اختلاف کے جنگجوؤں کے درمیان آپس میں شروع ہونے والی لڑائی نے شام کے تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ شام کا بحران ملک کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے دیگر قریبی
ممالک تک کو اپنی لپیٹ میں لے چُکا ہے۔ جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات اور شیعہ سُنی کشیدگی نظر آ رہی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ شام کی جنگ میں لڑنے والے بچوں کی حقیقی تعداد معلوم نہیں ہے تاہم شام میں کام کرنے والے ایک مانیٹرنگ گروپ ’دی وائلیشنز ڈاکومنٹنگ سنٹر‘ کے مطابق 2011ء سے اب تک ملک میں 194 ایسے بچے ہلاک ہو چکے ہیں جو ممکنہ طور پر جنگ میں شریک تھے۔